Monday, October 10, 2011

me kafir hon ager Islam ye hy


مُلک ایک عجیب ، خوفناک صورت حال سے دوچار ہی۔مہنگائی، دھماکی، ٹارگٹ کلنگ اور امریکہ کی دھمکیوں نے عوام کوذہنی مریض بنا دیا ہی۔’’شک‘‘ نے یہاں کے عوام کی ذہنوں میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہی۔ہر انسان دوسرے کو شک کی نِگاح سے دیکھتا ہے کہ یہی خودکش بمبار ہی، یا کسی مولوی کانوازاگیا جنت کا سَند یافتہ مسلمان جو دوسرے مسلمانوں کو قتل کر کیا ’ثواب‘ کمانے میں مصروف ہیں۔ بقول شا عِر
جانے کب کون مجھے مار دے کا فر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان بنا پھرتا ہی
اِنتہاپسندی کی یہ آگ ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کی لگائی ہوئی ہے جو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں اور مدرسوں میں حوروں کا جلوہ دیکھنے کے لیے بے چین بمبار ہمارے حکمران اور انکل سام کی مشترکہ پیداوار ہیں۔کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کا ’’ٹیسٹ میچ‘‘ جو بظاہر دو سیاسی جماعتوں کے درمیان کھیلا جاتا ہی، جونہی رُک گیا تو کوئٹہ کی وادی بے قصور زائرین کے لہو سے لال ہو گئی۔ یوں خون کی یہ ہولی ہنوز جاری ہی۔گزشتہ کچھ سالوں سے فرقہ پرستی کا زہر پاکستانی قوم میںسرایت کر چکا ہی۔ایک مسلمان دوسرے کلمہ گو مسلمان کو قتل کر کے خود کو جنّت کا حق دار کہلوانے پربضد ہی۔مدرسوں میں ذہنی تربیت(برین واش) کچھ اس طرح دی جاتی ہے کہ دوسرے فرقے اور مسلک کے پیروکاروں کو قتل کرنے کی نت نئی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔مولوی حضرات اِن معصوم ذہنوں میں نفرت کا زہر بھر دیتے ہیں اور قرآن شریف کی اصل تعلیم کے بر عکس اُنھیں فرقہ واریت کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں واضح طور پر فرقہ واریت کی لعنت سے دور رہنے کا حکم دیا ہی۔حکم ِ خدا وندی ہے کہ:۔
ترجمہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘
اس واضح فرمانِ الٰہی کے باوجود کچھ لوگ اس لعنت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ دی۔گزشتہ ہفتے ایران جانے والے شیعہ زائرین پر گولیاں برسا کر شہیدکرنا بھی اسی سلسلے کی اک کڑی ہی۔کیا اسلام اس عمل دیتا ہی؟ایسے ہی لوگوںکی وجہ سے آج عالمِاسلام اور خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔آج پاکستان اور پوری اُمتِ مسلمہ ایسے نام نہاد مسلمانوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہی۔فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لہر نے پوری دنیا کو ہم سے دور کر دیا ہی۔
مذہبی فرقوں کے سربراہان ایک دوسرے پر لفظوں کے ایٹم بم گرانے میں مصروف ہیں۔ہر فرقے کے پاس دوسرے کے لیے کُفر کا فتویٰ موجود ہی۔کوئی ’’یارسولؐاللہ‘‘ کہنے والے کو کافر کہتا ہے تو کوئی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے والوں کو کفر کا فتویٰ دیتا ہی۔کچھ لوگ موچھیں منڈوانے والوں کو دائرئہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں تو دوسرے لمبی داڈھی رکھنے والوں کے خلاف زہر اُگلتے ہیں۔خود غرضی کی اِنتہا یہ ہے کہ قرآن پاک کی ایتوں اور احادیث کو بھی نہیں بخشا ہی،جنہیں اپنے مقصد اور مطلب کے لئے اِستعمال کرتے ہیں۔آ ج ہم اصل اسلام سے کوسوُںدُور نکل آئے ہیں۔آ ج اسلامی معشیت، اسلامی فِقہ ،اسلامی ثقافت سب بدل گئے ہیں۔ ہم حضورؐ کی دین سے اتنی دُور نکل آئے ہیں کہ ہمارے اعمال دَورِجہالت سے مماثلت رکھتے ہیں۔
ٍ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبباسلام میں کی جانے والی مِلاوٹ ہی،جِسے اپنے مقصد کے لئے کی گئی ہی۔ شائد یہی ’’خود ساختہ اسلام‘‘ ان کو قتل و غارت کی تعلیم دیتا ہے ورنہ اسلام نے ایک انسان کی قتل کو پوری انسانیت کی قتل کا مترادِف قرار دِیا ہی۔ مذہبی فرقوں کے سربراہان کو چاہئے کہ وہ صرف ما ضی کی عا لیشان تاریخ و واقِعات کو خطبوں میں دُہرانے کے بجائے اس پہ عمل کریں اور فرقہ واریت کے ذہر کو معاشرے سے نکال پھینکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تاکہ مستقبِل میں ایسے درد ناک واقعات رونما نہ ہو۔

No comments:

Post a Comment