Wednesday, January 22, 2014

!!! اسلام خطرے میں ہے

لا ئبریری میں لاکھوں کی تعداد کی کتابیں تھیں،طب،ریاضی، نفسیات، تاریخ۔۔۔ غرض کہ ہر شعبے کے متعلق لکھی گئی کتابیں۔۔ لیکن ان میں ایک کتاب” میرے مذہب“ کے خلاف تھی۔ میں نے اپنے دوستوں کو جمع کیا اور لائبیریری کے تمام دروازوں پر بڑے بڑے تالے لگادئے اور بند کردیا۔ یہ سب میں نے ”اسلام“ اورخدا کے لئے کیا۔۔۔ دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بھی ایسی ہی بچکانہ حرکت کی ہے۔یو ٹیوب جو کہ دنیا بھر کے معلومات کا خزانہ ہے، پر اس پر اسلا م کے نام سے پابندی لگادی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام اتنا کمزور ہے کہ ایک ویب سائیٹ سے اسے خطرہ ہے؟؟ پوری دنیا کے پچاس سے ذائداسلامی ممالک نے ایسی نادانی نہیں کی صرف ہمارے ملک کے نام نہاد مسلمانوں نے اپنے عوام پر معلومات کے دوازے بند نہیں کر دیے۔ان اسلام کے ٹھیکیداروں نے صرف پاکستان میں ایسا کیوں کیا؟؟ کیا سارے پکے مسلمان صرف یہاں بستے ہیں؟؟ کیا کوئی اور حل موجود نہیں ہے؟؟ کیااسلام اتنا کمزور ہے کہ ایک ویپ سائٹ سے خوف محسوس ہونے لگا؟؟ ہم پوری دنیا کو اسلام کا کیسا امیج دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں آج اسلام کو سب سے بڑا خطرہ انہی لوگوں سے ہے جو اسلام کو مٹی کا برتن سمجھ بیٹھے ہیں ا ور ”حفاظت“ کرنے کی خاطر اونچی جگہ پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چاٹتی ہے آج بھی انسانیت اپنا لہو

ابو ظہبی کے 64سالہ حکمران شیخ حماد بن ہمدان الہنیان نے اپنے نجی جزیرے کے تین کلو میٹر سے زائد علاقے پر اپنا نام لکھوایا ہے جو خلاء سے نظر آتا ہے۔ ہر حرف نصف میل اونچا اور دو میل لمبا ہے اس پر تقریباً 23ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ اس دنیا میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو ایک ایک نوالے کے لئے ترستے ہیں۔بھوک کی وجہ سے سسک سسک کر مرتے ہیں،آدھی سے زیادہ دنیا غربت کے لکیر کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ اور چند لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ دوسری طرف جن کے ہاتھ میں چند سکّے ہیں وہ اس لیے پریشان ہیں کہ پیٹ کی آگ بجھا دی جائے یا تن ڈھانپا جائے؟؟ نادان شیخ اگر ڈھیر سارا پیسہ دنیا کے بھوکوں اور بے لباسوں کی مددکے لئے خرچ کرتے، کوئی ہسپتال کھولتے، کوئی تعلیمی ادارہ بناتے تو ان کا نام رہتی دنیا تک تاریخ کے صفحوں پر محفوظ رہتا۔۔۔۔ لوگوں کے سرچھپانے کے لئے جھونپڑی نہیں اورشیخ صاحب کے پاس کئی نجی جزیرے ہیں۔ ذرا سوچئے۔۔۔ ساحل پر یہ نام کب تک محفوظ رہیگا؟؟ چند سالوں تک۔۔۔ اس کے بعد اس کی اپنی ہی اولاد شاید وہاں اپنا نام کھدوایں، اگر وہ ان پیسوں سے کوئی جامعہ یا انسانی خدمت کے لیے خرچ کرتا تو نام ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق پر زندہ رہتا۔۔۔ نادان ہی نہیں بلکہ بے وقوف بھی ہے۔۔۔۔۔

Monday, January 20, 2014

”امیرِ شہر کے کتّے بھی راج کرتے ہیں“

جنوری کی سرد رات تھی،یخ بستہ ہوائیں جب جسم کو چھوتی تھی تو یوں گماں ہوتا تھا جیسے کسی نے تیز دھار آلے سے جسم پر وار کردیا ہو۔ لوگوں نے موٹی گرم چادریں اور جیکٹیں ژیب تن کی تھیں۔ ڈھول کی تھاپ پر کچھ لڑکے دیوانہ وار رقص کر رہے تھے، برقی قمقموں نے ہر طرف روشنی پھیلادی تھی۔ چند بزرگ افراد اور ادھیڑ عمر کے خواتین و حضرات جھومتے لڑکوں کو تالیاں بجا کر داد دے رہے تھے۔پاس کھڑی لڑکیاں رنگ برنگ کے لباس میں ملبوس ماحول کواور خوبصورت اور دلکش بنا رہی تھی۔یہ ایک شادی ہال کے باہر کا منظر ہے۔ دلہا کے پہنچتے ہی صاف ستھرے سوٹ میں ملبوس ایک جوان گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا جس کے ہاتھ میں روپیوں کی گڈیاں تھی۔وہ مسلسل ”کڑک
نوٹ“ دولہا کے اوپر برسا رہا تھا۔ چند قدم کے فاصلے پردس بارہ سالہ لڑکی ٹکٹکی باندھے حسرت بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ جسم پر واحد پھٹا پرانا اور کافی چھوٹا کرُتا تھا جس سے اس نے اپنا میلا بدن ڈھانپنے کی نا کام کوشش کی تھی۔ اس کی نظریں کبھی ہوا میں اڑتے نوٹوں پر تو کبھی بھاری بھرکم میک اپ میں میں ڈھیر سارے زیور سے آراستہ دلہن کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی۔۔۔ اس کے ساتھ بیٹھا چھوٹا بچہ بنا پلک جھپکائے برابر میں لگے سیخ کباب کی طرف دیکھتا جارہا تھا۔۔۔ اس دوران ٹریفک دوبارہ رواں دواں ہوگئی اور میں آگ بڑھ گیا۔آدھا ایک گھنٹے بعد جب میں واپس لوٹ رہا تھا تو اس جگہ پر ایک اور منظر میرامنتظر تھا،جسے دیکھ کر خود سے اور پوری انسانیت سے نفرت ہونے لگی وہی معصوم بچے اب شادی ہال سے کچھ فاصلے پر موجودکچرے کے ڈھیر پر بیٹھے اس کچرے میں سے چاول نکال کرپیٹ کی آگ بجھارہے تھے۔غالبا ً شادی ہال سے بچا کھانا یہاں پھینک دیا تھا۔ان بچوں کے برابر میں دو کتےّ ایک دوسرے کے ساتھ گتم گتّا تھے مگر بچے دنیا جہاں سے بے خبر پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے۔ ایسے مناظر ہمیں روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔لیکن ہمارا ضمیر اتنا مردہ ہوگیا ہے کہ ایک پل کے لئے بھی انسانوں میں اس تفریق کے بارے میں نہیں سوچتے۔ یہاں کوئی ایک
نوالے کے لے ترستا ہے اور چند لوگوں کے کتےّ بھی راج کرتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے۔
ہر بلاول ہے قوم کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
کاش بلاول اور مریم نوازش بھی یہ منظر دیکھ سکے اس ملک میں، جہاں ان کے باپ دادا، اور دیگر رشتہ دار حکومت کرتے آئے ہیں، میں ایک غریب کیسے جیتا ہے؟لیکن انھیں اس سے کیا غرض!! یہ تو حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں تیس ہزار بے گھر بچے گلیوں میں اپنے شب و روز بِتاتے ہیں۔ اس نظام کے خلاف جنگ ہمیں لڑنی ہے جدوجہد ہمیں کرنی، متحد ہوکر۔۔ اس تفریق کو مٹا کر۔
”آؤ مل کرسمیٹ لیں خود کو
اس سے پہلے کے دیر ہوجائے“

Wednesday, January 15, 2014

کرسی۔۔۔۔جادو

کرسی کے چار پیر ہوتے ہیں اور کچھ کرسیوں کے آرم(بازو) بھی ہوتے ہیں لیکن اس دنیا کی ہر کرسی ہاتھوں اور انگلیوں سے محروم ہونے کے با وجود لوگوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی ہے۔کہنے کو تو یہ بے جان چیز ایک ہی جگہ ساکت رہتی ہے،لیکن اس کے حصول کے لئے لوگ ہر قسم کا سفر کرلیتے ہیں۔ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طبِ کی کرسی پر بیٹھا شخص یعنی ڈاکٹر، یہ چاہتا ہے کے ملک میں خوب امراض پھیلیں،وکالت کی کرسی پر بیٹھے شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سب لوگ جرائم کا ارتکاب کریں،معمار اس تاک میں رہتے ہیں کے موسم خراب ہو شدید بارشیں ہوں اور لوگوں کے مکانات زمین بوس ہوجائے۔ اس ملک میں سب سے خطرناک کرسی سیاست کی ہوتی ہے اس کرسی پر بیٹھنے والے کا بس چلے تو ایلفی لگا کر مستقل طور پر اس کے ساتھ چمٹ جائیں۔ اس مقصد کے لئے وہ طرح طرح کے کھیل کھیلتے ہیں اور لطف اٹھا تے ہیں۔ عوام میں دراڈیں جتنی زیادہ ہوتی ہیں انکی کرسی اتنی ہی مضبوط ہوجاتی ہے وہ ہمیشہ چاہتے ہیں کہ عوام شعور اور آگاہی جسے ” لعنت“سے دور رہیں۔ دوسری اہم کرسی ملاّبرادری کی ہے۔ یہ اپنی کرسی میں ”مسلک“اور”فرقے“ کی کیلیں ٹھوکتے ہیں۔ ان کی کرسی کو مضبوط بنانے کے لئے لا ؤڈ اسپیکر اہم کردارادا کرتا ہے۔جنت کا سرٹیفکٹ یہ ہمیشہ اپنی جیب میں لئے گھومتے ہیں اور موقع ملتے ہی جھٹ سے پیش کردیتے ہیں۔ منافرت کی دراڑیں پیدا کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے جنکی داڑھی لمبی ہوتی ہے، شلوار ٹخنوں سے اوپر ہوتا ہے اسے مذہبی قراردیا جاتا ہے۔ملاّ وشیخ کا دائرہ ء اسلام ان کی ذہنیت کی طرح سکڑتا جاتا ہے۔ ان تمام کرسیوں پر بیٹھنے والوں کا ایک مشترکہ مقصد ہوتا ہے کہ عوام کسی قیمت پر متحد نہ ہوں،تفرقہ،لسانیت، کے بیچ بوئے جاتے ہیں بد قسمتی سے ہم خود اس بیچ کو بہت پیار سے پانی دیتے ہیں، خیال رکھتے ہیں اور پھلنے پھولنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو کہ اپنے پیر پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ کسی کی جان چلی جائے مال و اسباب لٹ جائے، کوئی عورت بیوہ ہوجائے،کسی ماں کا جوان بیٹا کھو جائے، کوئی بہن بھائی کے سائے سے محروم ہوجائے؛کرسی والوں کے
کانوں پرجوں نہیں رینگتی شاید انکی جوں بھی کرسیوں پر مضبوطی سے بیٹھنے کے عادی ہیں۔ جالب ؔ نے بجا فرمایا تھا محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
ہم چاہ کر بھی ان کرسیوں والو ں کا کچھ نہیں بگاڑسکتے ہاں البتہ اس طاقت کو ان سے چھین سکتے ہیں، جو ہم نے ہی انھیں دے دی ہے اور متحد ہوکر ہر کرسی کی
ٹانگیں توڑسکتے ہیں۔ آئے مل کر کوشش کرتے ہیں۔آخر ہمیں اپنی کا اندازہ کیوں نہیں ہے؟؟ فیضؔ کہتے ہیں (یہاں ’کتے‘ کا مطلب عوام ہے۔)
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتّے

کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی

زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا

جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی

نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے

غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے

جو بگڑے تو ایک دوسرے سے لڑادو

ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو

یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے

یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے

یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے

تو انسان سب سر کشی بھول جائے

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں

یہ آقاوؤں کی ہڈّیاں تک تک چبالیں

کوئی ان کو احساسِ ذلت دکھادے

کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہلادے