Saturday, September 24, 2011

اسلام دہشت گردوں کا مذہب؟؟؟


ہاتھوں میں ڈنڈے اور
Chain
لئے دس بارہ لڑکے دوڑے آرہے تھے ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی۔ ایسی چمک جو قصائی کی آنکھوں میں گوشت کاٹنے سے پہلے ہوتی ہی۔ یہ لڑکے پنجابی فلموں کے بدمعاشون کی مانند گندی اور غلیظ گالیاں دے رہے تھے اور ساتھ ہی ’’نعرہ تکبیر‘‘ کا نعرہ بھی فضا میں گونج رہا تھا۔ آتے ہی کچھ لڑکوں پر دھاوا بول دیا۔ ڈنڈی، Chain، پتھر اور جو بھی چیزیں ان کے ہاتھوں میں آرہی تھی ان سے دوسرے لڑکوں پر وار کررہے تھی۔
یہ کسی پنجابی فلم کا ’’سین‘‘ نہیں اور نہ ہی یہ لڑکے ان پڑھ گوار ہیں۔ یہ ملک کے ایک عظیم درسگاہ کے طالب علم ہیں جو ’’تبلیغ اسلام‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کو بچانے کے لئے ’’جہاد‘‘ کررہے ہیں۔ ایک ایسا جہاد جس کا درس نہ کچھ نبیؑ دیا اور نہ ہی ہمارا مذہب اس اس طرح کے درس کا محتاج ہے کیا یہ کسی مہذب معاشرے کر ذیب دینا ہی؟؟ نہیں بالکل نہیں۔ اسلام کا مطلب ’’امن‘‘ اور ’’سلامتی‘‘ کے ہیں۔ دوسرا سوال کیا اسلام کو پھیلانے میں انبیاء کرام اور ہمارے بزرگوں نے (نعوذ باللہ) ایسے کام کئی؟ اس کا جواب ہی‘‘ نہیں بالکل نہیں‘‘۔
آج ہم صرف نام کے مسلمان ہیں۔ اسلام اور انسانیت ہم سے کوسوں دور اور دور تر دور ہوتی جارہی ہی۔ مسلمانوں کی تاریخی واقعات کو صرف جمعہ کے دن ایک کان سے سنُ کر دوسرے سے نکال لیتے ہیں ان پر عمل کرنا تو کجا۔ ہم قرآن مجید کا باآواز بلند تلاوت کرکے ثواب کماتے ہیں لیکن اس میں موجود ہدایت خداوندی پر عمل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ آج کے مسلمان خود غرضی اور تعصب کے آخری حدوں کو چھوڑ رہے ہیں۔
یہاں تک کہ ہم نے اللہ کی کتاب اور نبیؐ کے احادیث کو بھی نہیں بخشا۔ جسے اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا اسلام کو دہشت گردوں کا دین اور پاکستان کو دہشت گردوں کا ملک کہتی ہی۔ اس کے ذمہ دار آج کے مسلمان ہیں۔ آج کے مسلمانوں کے قول و فعل کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ حضورؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور انہی کی وجہ سے اہل یورپ اسلام اور مسلمانوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کو بنیاد بناکر دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب کہتے ہیں اور مسلمانوں کو پوری دنیا میں شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہی۔
نبیؐ کی حیات طیبہ پورے عالم اسلام کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہی۔ تاریخ گوہ ہے کہ آپ کے دور میں خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر پورے مکہ کو فتح کیا تھا۔ لیکن آج کے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں بے دردی سے کہیں مذہب اور کہیں غیرت کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ کیا یہ وہی اسلام ہے جس کا درس بنیؐ نے دیا تھا؟؟؟ ہم اسی بنیؐ کے پیرو کار ہیں جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا تھا؟؟؟ یہاں میں ایک واقع مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
حضورؐ پر ایک بڑھیا روزانہ کوڑا پھیکا کرتی تھی۔ آپؐ نے کبھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس بڑھیا سے بدلہ لیا۔ آپؐ چپ چاپ مسکراکر گزر جاتے تھی۔
ایک دن آپؐ وہاں سے گزر رہے تھے لیکن خلاف معمول بڑھیا وہاں موجود نہیں تھی اور آپؐ پر کوڑا نہیں پھینکا۔ آپؐ اس کی خبر گیری کرنے اس کے گھر چلے گئی۔ بڑھیا اس دن بیمار پڑی تھی جو حضورؐ کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئی۔ آپؐ نے اس کی عیادت کی۔ بڑھیا آپؐ کی فراخدلی اور عظمت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگی۔
نبیؐ کریم کے طریقہ تبلیغ اور آج کے مسلمانوں میں کتنی مماثلث ہی؟ یہاں میرا مطلب ان شرپسند لوگوں سے ہے جو اسلام کے ٹھیکدار بنے بیٹھے ہیں اور اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔
آج کے اعتدال پسند اور روشن خیال مسلمان ایک مسلح اور خونخوار اقلیت کے خوف میں مبتلا ہیں اور پورا پاکستان اس کی لپیٹ میں ہے یہ لوگ دنیا میں جنت کے ’’سند‘‘ (سرٹیفکیٹ) تقسیم کرتے ہیں اور ملک و مذہب کے ٹھیکدار بنے بیٹھے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھ اور قائداعظم کو ’’کافرا اعظم‘‘ تک کہا۔ لیکن آج ’’جنت‘‘ اور ’’حب الوطنی‘‘ کے ’’سرٹیفیکٹس‘‘ لئے بیٹھے ہیں۔ لگتا ہے ہم پھر اسی Stone age اور جاہلیت کی طرف محو سفر ہیں جہاں عورتوں کو زیادہ دفن کیا جاتا تھا۔ اصل اسلام سے کوسوں دور اور یہ فاصلہ مذید بڑھتا جارہا ہی۔ آج ہم سچ بات بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ حضورؐ کے دین کو مسخ کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کہ ہمت نہیںَ
آخر میں دُعا ہے کہ یااللہ اسلام کو مسخ کرنے والوں کو ہدایت دے اور ہمیں ہمت عطافرما تاکہ ہم ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرسکی۔ (آمین)
قتیلؔ اس شہر غونما میں نہ تو بول
یہاں پیارے تیری آواز کیا ہی

No comments:

Post a Comment