Thursday, November 29, 2012

.... کیسا اسلام۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟

بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
اکبر الہ آبادی

محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی ہر سال میرے پڑوس میں ایک دلچسپ لیکن افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اور ہر سال اس کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ دسویں محرم تک یہ انوکھا کھیل جاری رہتا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ان دنوں میں پورے ملک کی فضائیں نوحوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے، ویسے ہی میرے پڑوس میں بھی باآواز بلند نوحے چلائے جاتے ہیں۔ میرے دونوں پڑوسی الگ الگ مکتبۂ فکر کے ماننے والے ہیں۔اور دونوں ان دِنوں میں ’’مذہب اور عبادت‘‘ کے نام پر اخلاقیات کو یکسر بھُلا دیتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ اخلاقیات کے ساتھ ساتھ مذہب کا بھی جنازہ نکال دیتے ہیں۔
ایک گھر میں اتنی تیز آواز میں نوحے چلائے جاتے ہیں کہ مجبوراً مجھے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے پڑتے ہیں۔ایسے میں پڑھنا اور مطالعہ کرنا تو کُجا چین سے بیٹھنا محال ہوتا ہے۔ کیونکہ دوسرے گھر والے نوحوں کا مقابلہ قرآن کی تلاوت سے کرتے ہیں۔ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کا کسی نہ کسی طرح قرآن کی تلاوت کی آواز نوحوں سے اونچی ہو۔ایک بیوقوفانہ عمل۔................۔ بہت ہی احمقانہ اور انوکھی بات یہ ہوتی ہے کہ جونہی نوحے چلائے جاتے ہیں اُسی لمحے دوسرے گھر سے سورہ الرحمن فُل آواز میں سنائی دیتی ہے۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ باقی ایام میں دونوں گھرانوں میں قدرے دھیمی آواز میں ہندوستانی فلموں کے گیت سُنے جاتے ہیں لیکن اس طرح کا مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اب فیصلہ آپ قارئین کریں کہ ہم مسلمان کس سمت جارہے ہیں؟؟ یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کتنے متحد ہیں؟ اورکس حد تک ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں؟؟ ہم عید ساتھ مناتے ہیں نہ دوسرے تہواروں میں ایک دوسرے کے عقیدوں کا احترام کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے عبادت خانوں سے لیکر برتن اور رنگوں کو بھی مذہبی و مسلکی بنیاد پر تقسیم کیا ہوا ہے۔ تمام مسلمان یکجا ہوکر صرف منٰی میں شیطان کو کنکریاں مارسکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کے ہر کونے میں شکست خوردہ ہیں۔ ذرا سوچئے اور اس خول کو اُتار پھینک دیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔