Tuesday, July 15, 2014

ادب اور فن کا رشتہ

فن ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ادب اپنی صورت دیکھ کر سنورتا ہے اور بناو سنگار کرتا ہے۔ فن کا ادب سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جس طرح ایک ادیب اور لکھاری معاشرے میں موجود کسی برائی کو الفاظ کی شکل میں منظر عام پر لاتا ہے اور قارئیں تک پہنچاتا ہے بالکل اسی طرح ایک فنکار اشکال کی مدد سے یہی کام سر انجام دیتا ہے۔ ایک آرٹسٹ اپنے اردگرد کے مسائل پر باریک بینی سے غور کرتا ہے اور اسے اشکال یعنی پینٹنگ یا مجسمہ سازی کی مدد سے کینوس پر اتارتا ہے۔ آرٹ اور فن کی کئی اقسام ہیں ۔ مثلآ خطاطی، مجسمہ سازی ، ڈرامہ، تھیٹر، موسیقی وغیرہ۔ ان تمام اقسام کا ادب سے دامن چولی جیسا رشتہ ہے۔ اس کی ایک خوبصورت مثال اردو گیت یا غزل کی ہے۔ اگر شاعری اور گیت صرف لکھ کر چھوڑ دیا جائے تو عوام میں اتنا مقبول نہیں ہوتا مگر جب فنکار کی آواز اس کو چھوتی ہے تو زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اور مقبول ہوجاتاہے۔ اگر ناصر کاظمی کی مشہور غزل "دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی" کو مہدی حسن خان نے نہیں گائی ہوتی تو شاید آج کتابوں میں دفن ہوچکی ہوتی۔ اردو ادب کی ترویج میں جتنا کام ادیبوں نے کیا اتنا ہی کردار فن کاروں نے بھی اردو ادب کی خدمت کے لئے ادا کیا ہے۔ یہ بات صرف اردو ادب کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے ہر ادب کے لئے کہی جاسکتی ہے چاہے انگریزی ادب ہو یا فراسیسی۔ فن کاروں نے ادب کی ترویج و ترقی کے لئے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اردو میں صادقین کے نام سے کون واقف نہیں؟؟ انھوں نے اپنی شاندار خطاطی اور بے مثال پینٹنگز میں اردو نہ صرف ملک میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا۔ انھوں نے اپنی رعبا ئیوں کو کینوس پر اتنی خوبصورت سے اتارا ہے کہ دیکھنے والا دھنگ رہ جاتا ہے۔ مشہور آرٹسٹ گل جی کی قرانی آیات کی خطاطی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سنیما کی کہانی یا اسکرپٹ ادب کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے. یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ادب نہیں توسنیما کی بنیاد ہی ختم ہوجائے اور اگر وہی اسکرپٹ فلم یا ڈرامے کی شکل میں وسیع پیمانے پر ادیب کے پیغام کو پہنچاتی ہے جو فن اداکاری کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ادب اور فن میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔