Tuesday, July 30, 2013

مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون..


بارش ہورہی تھی، میں سرتا پا بھیگا ہوا تھا۔ میں نے قمیض کے اوپر اُونی سویٹر، اس کے اوپر بھاری بھار کم جیکٹ ذیب تن کی تھی۔ جو جگہ جگہ سے منہ کھولے ہنس رہی تھی۔ آستین پر میں اپنی ناک کی مدد سے بلیک اینڈ وائٹ پینٹیگز بنائے تھے۔ اسی دوران میری نظر دیوار پرلاچاری اور بے سروسامانی کے عالم میں بیٹھی چڑیا پر پڑی۔
میں ٹکٹکی بھاند کر اسے دیکھتا رہا ۔ نجانے کب میری آنکھوں سے آنسوں رواں ہوگئے۔ وجہ دریافت کرنے پر میں نے اّمی کو اشارے سے چڑیا دیکھا دی اور بتایا کہ اس کا تو گھر بھی نہیں ہے۔ بارش ہورہی ہے ، کہاں جائیگی؟؟ میں امّی کے ساتھ خوبانی اٹھانے گیا تھا جسے رات تیز ہوا نے درخت سے گرائے تھے۔ "اللہ بڑا مہربان ہے۔ ان سب کی حفاضت کرتاہے۔ پرندوں کے بھی اپنے گھر ہوتے ہیں۔"
امّی نے پیار سے سمجھایا۔
یہ واقعہ تقریبا پندرہ برس قبل پیش آیا تھا۔ اس وقت میری عمر سات آٹھ برس تھی۔ آج زمانہ کتنا بدل گیا ہے؟؟ روز سینکڑوں لوگ مرتے ہیں۔ بھوک افلاس، بے روزگاری اور کئی دیگر وجوہات کی وجہ سے۔ لیکن کبھی آنسوں نہیں نکلتے۔ میں بڑا ہوگیا یا بے حِس؟؟ اکثر سوچتا ہوں تو فراق گورکھپوری کی غزل جسے جگجیت سنگھ کی آواز نے امر کردی ہے، یاد آتی ہے
تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

Thursday, July 25, 2013

گلستانِ مُلاّ ...




اگر تزئینِ چمن کا فریضہ کسی ملا ّ کو دے دیا جائے تو چمن "سدھارنے" اور پاک بنانے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کریگا۔
۔مرغ۔۔ شہنشاہ

مرغ چمن کا شہنشاہ ہوگا کیونکہ اسے آزان دینا آتی ہے۔ مینا، بلبل، طاوس سمیت تمام پرندوں کو مرغ کے مدرسے میں داخل ہوکر آذانیں سیکھنا
ہوںگی۔
۔ فقط پتّوں کے برقعے میں تبسم کی اجازت:

کلیوں اور پھولوں کو فقط پتّوں کے برقعے میں تبسم کی اجازت ہے کیونکہ چمن میں کلی کا پھول بننا بے پردگی اور "فحاشی" ہے۔ اس کئے لازم ہے کہ پھول اور کلیاں پتّوں سے پردے کا اہتمام کریں
۔
۔ ہوا اٹھکیلیاں مت کر:

ہوا اٹھکیلیاں مت کر کیونکہ اس کی وجہ سے درختوں کی شاخیں جھومنے لگتی ہیں اور چمن میں رقص کی بنیاد پڑتی ہے۔ شاخیں ایک دوسرے کو چھُولیتی ہیں، پتّے ایک دوسرے کو چُوم لیتے ہیں، پھر طاوس پنکھ پھیلا کر رقص کرنے لگتے ہیں۔ یوں چمن میں "بے حیائی" کی بنیا د پڑتی ہے۔
طاوس کے پنکھ کاٹ کر داڑھی بڑھانے کا حکم جاری کیا جائے۔
۔ تتلیوں کو کوڑے لگاو:

تتلیوں کی پُشت پر کوڑے لگادئے جائے کیونکہ یہ سرِعام پھولوں کے ساتھ بغل ہوجاتی ہیں۔ دوسرا قصوران کا رنگ برنگ لباس ہے۔ اس طرح یہ
"متّقی اور پرہیزگاروں" کا دیں خراب کرتے ہیں۔
۔ کوئل کی کُوکُو اور پرندوں کی چہچہاہٹ پر پابندی:

موسیقی چونکہ حرام ہے ،کوئل کی کُوکُواور پرندوں کا چہچہانا موسیقی کے ذمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا اس پر مکمل پابندی لگادی جائے ۔
۔مکڑی کو جالا بُننے پر پابندی:

مکڑی کا جالا بُننا کینوس پر پینٹنگ کے مترادف ہے۔ جو کہ سراسر حرام ہے۔اگر رذقِ حلال کی خاطر جالا بُننا مجبوری ہے تو ڈیزائننگ کے بغیر
سادہ جالا بُنا جائے۔ تاکہ دیکھنے والے اس طرف متوجہ نہ ہوں۔
7۔ خوشبو کا کسی جھونکے کی انگلی تھامنا نہیں جائز:

خوشبو کا سرِعام کسی اجنبی جھونکے کی انگلی تھام کر چلنا ناجائز ہے کیونکہ یہ جھونکیں "نامحرم" ہیں۔ کسی نامحرم کے ساتھ ایسے گھومنا "گناہِ کبیرہ" ہے۔

Sunday, July 21, 2013

ماہِ صیام کا تقاضا اور ہمارا رویّہ...

اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہِ صیام انکساری ، قناعت ، برداشت اور اپنی نفسیاتی خواہیشات پر قابو پانے کا درس دیتا ہے تاہم آج کا مسلم معاشرہ خصوصاً پاکستان میں صورتِ حال بالکل اس کے بر عکس ہے۔ ہر سال کئی ایسے واقعات اخباروں کی زینت بنتے ہیں جو ملک اور مذہب دونوں کو بُری طرح بد نام کرتے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے دنوں گلگت میں پیش آیا۔ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد چند ڈنڈا بردار عناصر نے ایک مقامی ہوٹل پر دھاوا بول دیا ان روزہ داروں نے سب سے پہلے ہوٹل کے مالک کو مارا پیٹا پھر باقی ’’مذہبی فریضہ‘‘ ہوٹل کے فرنیچر اور دیگر اشیاء توڑ پھوڑ کر ادا کیا۔ہوٹل سے کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا کر باہر پھینک دی گئیں اور وہاں موجود لوگوں کو بھی نہیں بخشا۔وجہ یہ تھی کہ رمضان کے مہینے میں یہ ہوٹل بند نہیں کیا تھا۔ تحقیقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ DHQ ہسپتا ل گاہکوچ کے پاس بنا یہ چھوٹا ہوٹل مسافروں کے لیے طعام کی فراہمی کے واسطے مقامی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نامہ(پرمٹ) کے حصول کے بعد کھُلا رہتا ہے۔ قارئین ذرا غور کیجیے ! ہم پوری دنیا میں اپنی ساکھ کو کس طرح خراب کر رہے ہیں یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ہمارا مذہب اس طرح تشدد کرنے اور دہشت پھیلانے کا درس دیتا ہے؟کیا ریاستی قوانین کو توڑنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا روزے کا تقاضا یہی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔۔یہ ڈنڈا بردار افراد نمازِ جمعہ ادا کرکے آئے تھے اور ماشاء اللہ سے روزہ دار بھی۔۔لیکن انہوں نے جو پُر تشددرویّہ اختیار کیا اس کا درس کم از کم مذہبِ اسلام نہیں دیتا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک قطرہ خون بہائے بنا مکہ فتح کیا تھا لیکن ان تاریخی واقعات کو ہم صرف جمعے کے خطبے میں دہراتے ہیں اور عملی زندگی میں ان پر عمل کرنا گوارا نہیں کرتے۔یہ عناصر اپنے بنائے فیصلوں کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں اور بسا اوقات ریاستی قوانین کو کُچلتے نظر آتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ حضرات اس ہوٹل کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کر لیتے یا پھر باہمی گفت و شنید کے ذریعے اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرتے۔۔لیکن انہوں ایسا نہیں کیا۔ ڈنڈے اُٹھائے مار پیٹ کی،تشدد کیااور اسے اسلام کی خدمت قرار دے کر’’اپنے نیکیوں میں اضافہ کیا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان عدم برداشت اور صبرو تحمل کے فقدان کی وجہ سے بدنامی کا شکار ہو رہے ہیں جو کہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کے بعد خاموش کیوں ہیں؟اگر وہ تحفظ فراہم کرنے کے اہل نہیں اور ایسے شر پسند عناصر کو لگام دینے میں بے بس ہیں تو اجازت نامہ(پرمٹ) کیوں جاری کیا؟؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے گھناؤنے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور ایسے پُر تشدد واقعات کے مرتکب افراد کو کڑی سے کڑی سزا دے اور لوگوں کے مال و جان کے محافظ ہونے کا ثبوت دے۔