Tuesday, September 30, 2014

یاسین میں بروشسکی شاعری کا ارتقائی دور ..(حصہ دوم)

حالیؔ کہتے ہیں
’’ہر زبان میں نیچرل شاعری قدما کے حصے میں رہی ہے مگر قدما کے اول طبقے میں اس شاعری کو مقبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ انہی کا دوسرا طبقہ انہیں سڈول بناتا ہے مگر اس کی نیچرل حالت کو وہ اس خوشنمائی میں بھی بدستور رکھتا ہے۔ اس کے بعد متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ لوگ قدما کی تقلید سے باہر قدم نہیں رکھتے ہیں اور خیالات کے اسی دائرے میں محدود رہتے ہیں جو قدما نے ظاہر کیا تھا اور نیچر کے اس منظر سے جو قدما کے پیشِ نظر تھا آنکھ اٹھا کر دوسری طرف نہیں دیکھتے ہیں تو بھی ان کی شاعری رفتہ رفتہ نیچرل حالت سے تنزل کرتی ہے یہاں تک کہ وہ نیچر کے راہِ راست سے دور جا پڑتے ہیں۔ ‘‘
یاسین میں بولی جانے والی بروشسکی شاعری پرحالیؔ کا یہ تجزیہ مکمل صادق نہیں آتا کیونکہ جس قدر نیچرل شاعری قدما نے لکھی ہے بالکل اسی پائے کی نیچرل شاعری اس دور کے نوجوان شعراء کرنے لگے ہیں۔ چند سال قبل پروشسکی شاعری میں مرحوم مچھی کی شاعری جیسی شاعری ڈھونڈنے سے نہیں ملتی تھی کوئی توانّا مصرعہ سننے کو کان ترستے تھے سچ کہوں تو لوگ مایوس ہوگئے تھے۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ سراسر زیادتی ہوگی کہ بروشسکی شاعری پہ بات کی جائے اور مرحوم مچھی کا ذکر نہ ہو۔ انھیں پروشسکی شاعری کا غالب ؔ کہا جاتا ہے۔ جس طرح غالبؔ کے تذکرے کے بغیر اردو ادب نامکمل سمجھی جاتی ہے اسی طرح یہ کہنا درست ہے کہ مچھی کے نام کے بغیر پروشسکی شاعری ادھوری ہے۔ ان کا تخیل کمال کا ہے وہ کبھی ورڑس ورتھ کی طرح خوبصورت نیچرل شاعری کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ناصر کاظمی کی طرح رومانیت کے پھول کھلاتے نظر آتے ہیں۔ جذبات کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ شاعری کے دھاگے میں پروتے ہیں جس کی مثال کسی اور کے ہاں نہیں ملتی ۔ جیسا کہ ان کی یہ شاعری آج بھی نوجوانوں اور بچوں میں بھی یکساں مقبول ہے ۔
تھاوسا چھیران جی باتین سرحد چے لم بالیش
مولا غا حوالہ کُھو فکر کا مکُر ایتاس نے شُم قام چے کا بالیش
جوانی تے غیرت کھی گلی جہ ہرچمبا
گو خسمت اولے با تے سیتھا ر نِیا بلبل گو سپھتینگ ایچامبا
بَلیس جہ تالے چے، جا دینا جانیا خوروسی، یا خوروسی باکا سِن اُت گلاہ جہ بیچامبا
سیاست اکومن خوش اُن با نانی مو واخشی 
گوگُونگوم غانا کاچے بوری قوبامو جوا امِن زرگرِ واشلی
گو گندی چی گدیرو قالب گوچوم جدا جا روح بی گو بندی
چنانچہ میری طرح اور بھی کئی لوگ چند ساک قبل بروشسکی شاعری کے مستقبل سے مایوس ہو چلے تھے۔ چند لوگ ایسے بھی تھے جو ہماری طرح صرف ماتم کناں نہیں تھے بلکہ عملی طور پر بروشسکی شاعری کے اندیھرے دور میں اپنی شاعری کا دِیا جلائے پہنچ گئے اور’ اپنے حصے کے شمع جلاتے جاؤ‘ کے مصداق روشنی پھیلاتے گئے ان میں ایک نام محبوب یاسینی کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری کو روحِ شعر سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اسے کچھ ہم آواز ساز بھی درکا ہوتا ہے اوراگر خوبصورت آواز اسے چھُو لے تو وہ شاعری امر ہوجاتی ہے۔ محبوب یاسینی کی شاعری اور درد بھری آواز پچھلے چند سالوں سے یاسین میں بولی جانے والی بروشسکی سمجھنے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ نوجوان نسل ان کی شاعری اور گلوکاری کا دلدادہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں 
بہشتِ کٹر یسن پھت نوکوت جہ انہ چھیرام
گووے صپھا تنگ ایتوما اہوٹس اُوسنَ چھیرام
دنیا دورونگے گندی پھت نوکوت رہی ایتامبا
آؤو گوچھر نوت یسن گوگُوچوم متھنَ چھیرام
انے پھلالنگ دوخر، انے قلاہورے چھاغا
انے شفتلے ملِنگ، انے گِناہورے چھاغا
وِیری ٹونگ ٹنگ مایوم چِک گُیاٹوم بتھنِ ہوا
سرمہ گو تِیکے ایچام ، دُولا گو ہُن دَنا چھیرام 
بہشتِ کٹر یسن پھت نوکوت جہ انہ چھیرام
(اے بہشت نظیر وادی ، میرا وطن یسن! میں تجھ سے دور کیسے رہ پاؤں گا؟ تیرے سر سبزو شاداب کھیت، پھولو ں کی خوشبو، درختوں کا رقص لمحہ بہ لمحہ میرے ساتھ میرے خیالوں میں ہوتے ہیں۔ مگر مجبوریاں میری آنکھوں میں انسوؤں کو خاطر میں لائے بغیر مجھے تجھ سے دور لے جارہی ہیں ۔ میں تیری تعریف کرنے والے ہر شخص کا احترام کرتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں )
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اس خطے سے محبت اور خلوص دریائے سیاست میں ڈوب گئے ہیں۔ ایک ایسی آگ لگائی ہے کہ جس میں پورا خطہ جل رہا ہے اور نفرتوں کے شعلوں کی زد میں نوجوان نسل بے بال و پر پرندوں کی طرح بے بس دیکھائی دیتی ہے۔ ’خود کو تباہ کر لیا لیکن ملال بھی نہیں‘ کے مصداق آگ لگانے والے دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں اور جلنے والے خو د آج بھی اس آگ کو ایندھن فراہم کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں محبوب یاسینی کی شاعری ایک گنگناتے ہوئے آئینے کی طرح دمک رہی ہے اور ان تمام مناظر کے علاوہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ ، علاقے کا تہذیب و تمدن اور یہاں کے باشندوں کا خلوص و محبت بھی دیکھاتی نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں
خدایا عُضُردُوا جا بتھن اُم سیس ہن اوتیس
اُس اولے ذنگ دُولوما ننگ یاکالا گَنن اوتیس
رسولے چھور سینومام مِن کا مِن چوم تھانوم اپائے
قوم، مذہب دیساس سیس می ہرنگ زر چھن اوتیس 
خدایا عُضُردُوا جا بتھن اُم سیس ہن اوتیس
(رب کائنات سے میری دعا ہے کہ میرے علاقے سے لسانی و مذہبی نفرتوں کو دفع کرے اور تفرقہ پھیلانے والوں کو سیدھی راہ دیکھادے۔ رسول خدا نے فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ )
بروشسکی کے نوجوان شاعر بشارت شفیع نے بھی ان حالات کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی ہے۔ وہ نفرتوں کو مٹانے کے لئے محبت، الفت اور خلوص جیسے الفاظ شاعری کی لڑی میں ایسی خوبصورتی سے پیروتے ہیں کہ اگر چنگیز خان سنے تو شاید اپنے کئے پر پشیماں ہوجائے۔
اجو متھن نُوہُوروٹ شُم میمانِن
دوہون میرن چے می دُوچھرا چھیران
میسے مُلتن یاٹے نُکر مِن تِس نیت
اکھونگ چُوم میہانے خبر میمایان
چُولینی ہن مانیس می ہن ماکوچی
سیس ہرنگ می ہنَ نُوقر میمایان 
اکھونگ چُوم میہانے خبر میمایان
(ہمارے درمیان کتنی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں اور کتنی برائیاں جنم لے رہی ہیں؟ آئیے آج ان تمام نفرتوں کو بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں۔ آئیے آج اپنے جگر کے خون سے لکھ کر یہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔ )
(جاری ہے)
published in Pamir Times Aug 10, 2014 
http://pamirtimes.net/urdu/archives/14089

Sunday, September 28, 2014

بحث و تکرار (سرسید احمد خان)

جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھلائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے۔ پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں۔ اس کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں۔ اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا۔ نامہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے۔ دوسرا بولتا ہے واہ یوں نہیں یوں ہے۔ وہ کہتا ہے واہ تم کیا جانو۔ وہ بولتا ہے تم کیا جانو۔ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے۔ تیوری چڑھ جاتی ہے۔ رخ بدل جاتا ہے۔ آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتی ہیں۔ باچھیں چر جاتی ہیں۔ دانت نکل پڑتے ہیں۔ تھوک اڑنے لگتا ہے۔ باچھوں تک کف بھر آتے ہیں۔ سانس جلدی چلتا ہے۔ رگیں تن جاتی ہیں۔ آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں۔ آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا، اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں لپّا دکّی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کر کر چھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک اِدھر چلا گیا اور ایک اُدھر اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کمزور نے لپٹ کر کپڑے جھارتے سر سہلاتے اپنی راہ لی۔ جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو کر رہ جاتی ہے تو کہیں تو تکار تک نوبت آ جاتی ہے۔ کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے ہی پر خیر گذر جاتی ہے۔ مگر ان سب میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلافِ رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کو پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہے۔ مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب اور شائستگی، محبت اور دوستی کو ہاتھ سے دینا نہ چاہیے۔ پس اے میرے عزیز ہم وطنو۔ جب تم کسی کے برخلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دو بدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو مگر بناوٹ بھی نہ پائی جاوے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے لفظ استعمال کرو مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا شاید میں غلط سمجھا گو بات تو عجیب ہے مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔ جب دو تین دفعہ بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے کو نہ بدلے تو زیادہ تکرار مت بڑھاؤ۔ یہ کہہ کر کہ میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا، جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کر ختم کرو۔ دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلاؤ کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا کیونکہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور ایسی عزیز چیز (جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ جب کہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملے ہوئے ہیں تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے اور تکرار اور مباحثے کو آنے مت دو۔ کیونکہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو، اس کو ختم کرو۔ اور آپس میں ہنسی خوشی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کر لو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان کی مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔