Monday, June 30, 2014

Sir, You are great

پہلا منظر شدید گرمی ہے، درجہء حرارت 42 ڈگری سنٹی گریڈ ۔۔ ۔کراچی کے ایک مصروف شاہراہ کو چند پولیس اہلکاروں نے بند کیا ہوا ہے اور چوکس کھڑے ہیں ۔اس روڈ پرپھنسے لو گ شدید گرمی کی تمازت سے پسینے سے شرابور ہیں ۔موٹر سائیکل اور سائیکل سوار افراد سر تا پا پسینے میں نہار ہے ہیں ۔بسوں اور کو چز کے مسافر وں کی حالت بُری ہے ۔گرمی اور ضرورت سے زیادہ سواری کے سبب دم گٹھ رہا ہے ٹریفک کی لمبی لائن میں گدھا گاڑی کے گدھے کے منہ سے رال ٹپک رہا ہے اور مالک اپنی آنکھوں کو سورج کی تپش سے بچانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔لاچاری ،بے بسی اور غصہ گدھے سمیت اس منظر میں شامل تمام لوگوں میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ دوسرا منظر گاڑیوں کی لمبی قطار ہے، آگے اور پیچھے پولیس اور رینجرز اہلکار وں کی گاڑیاں۔ ان کے درمیان میں چند چمکتی گاڑیاں ،جن کی پچھلی نشستوں پر بندوق بردا ر افراد ۔۔۔ اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں لوگ آرام سے بیٹھے ہیں کچھ لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور چند جدید موبائل فونزپر گانے سننے کے ساتھ ساتھ فیس بک اورٹویٹر کو اب ڈیڈ کررہے ہیں ۔گاڑیوں کا یہ قافلہ سائرن بجاتا ہوا جس سڑک سے گزرتا،وہاں کا منظر بالکل پہلے منظر کے جیسا ہو جا تاہے۔ باہر کھڑے لوگ حسرت بھری نگاہوں سے اس قافلے کو دیکھتے ہیں اورکچھ غصے اور نفرت سے۔۔۔ تیسرا منظر ہسپتال کے بیڈ پر ایک10,12سالہ لڑکی لیٹی ہے اس کے ہاتھ میں پانچ ہزار کا کڑک نوٹ چمک رہا ہیں ۔ بیڈ شیٹ اتنے گندے کہ شایدمہینوں سے نہ دھلے ہوں ۔جگہ جگہ داغ دھبےَ َََََََََََ……..سفید چادر پر دو چار سفید دھبے بھی نظر آرہے تھے باقی کالے رنگ کا معلوم ہوتا ہے۔ کمرے کی کھڑی پان اور گٹکا تھوکنے کی وجہ سے لال ہوئی ہے، دیواریں اور الماری گردوغبار سے اٹے ہوئے ہیں ۔لڑکی کے ساتھ بیٹھی ادھیڑ عمر کی خاتون کبھی پانچ ہزار کے نوٹ کو دیکھتی اور کبھی لڑکی کے زرد چہرے کو…..اور کبھی سفید کپڑوں میں ملبوس صاحب کو جس نے پانچ ہزار کے نوٹ سے’ نوازا‘ تھااور کبھی تصویریں اتارتے لوگوں کو………. چوتھا منظر سفید کپڑوں میں ملبوس شخص نے جھاڑو پکڑ کر کھڑکی پر پڑے گھوٹکے کو صاف کیا ۔نیکون کا کیمرا تھامے شخص اور اسمارٹ فون سے لوگوں نے تصویرے اُتار ی پھر ان صاحب نے باتھ رو م کی بالٹی میں ادھا پانی بھر کر گندے ٹائلوں پر گرایا۔ 8,10نئے بیڈ شیٹ انتظامیہ سے منگوائے ۔پلاسٹک کی تھیلیوں میں لایا گیا کھانا ’’صاحب‘‘مریضوں کو اپنے ہاتھوں سے دے دیا۔اپنی جیب سے اور اپنے ہمراہیوں سے لیکر کچھ مریضوں کو نقد تھمایا۔ایک ایک لمحے کی تصویریں اُتاری گئی ۔ نیکون کیمرے والا شخص نہایت پُھرتیلا تھا۔ وہ کبھی بیڈ پر (جن کے بیڈ شیڈ چند لمحے قبل تبدیل کئے گئے تھے )کبھی کرسی پر چڑھ کر صاحب کی تصور اُتارتا۔۔ ایک شخص اسمارٹ فون سے تصویریں لیکر فوراً ٰفیس بک کو اب ڈیٹ کر رہاتھا ۔ یہ تمام مناظر چیف سکٹر یری سند ھ سجاد سلیم ہو تیانہ کے لیاری ہسپتال کے دورے کے ہیں ۔ سفید کپڑوں میں ملبوس صاحب ’’ہر دلعزیز‘‘ چیف سکٹریری صاحب ہیں فیس بک پر اِب کے مداحوں کی تعداد 32000 سے تجاوز کر گئی ہے ۔ اس دن ان کی گاڑیوں کے قافلے میں میں بھی اے سی میں آرام سے بیٹھ کر باہر کے مناظر کو دیکھ رہا تھا ۔ دوسرے منظر میں تپتی دھوپ میں کھڑے لوگوں کی بے بسی دیکھ کر مجھے خود سے نفرت ہو رہی تھی کیونکہ بالکل اسی طرح میں خود بھی کئی بارٹریفک میں پھنس چکا ہوں۔ میں لوگوں کی آنکھوں میں موجود غصہ اور نفرت دیکھ سکتا تھا۔ ان کی لاچاری ، بے بسی کو بھی محسوس کر سکتا تھا، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ لوگوں نے گاڑیوں کے اس قافلے کو اور ان میں سوار لوگوں کو (جن میں میں بھی شامل تھا) کن کن ’القابات‘ سے نوازا ہوگا اور کیسی ننگی ننگی گالیاں دی ہونگی۔ مگر یہ ’’بے وقوف لوگ‘ ‘ کیا جانیں کہ ہم انہی کی ’’خدمت‘‘ کی خاطر اتوار کو وقت نکال کر چیف سکڑیری صاحب کے ساتھ سرکاری اسپتال کے دورے پر گئے تھے۔ ٹھیک ایک گھنٹہ بعد گھر پہنچ کر میں نے جب فیس بک کھولا تو اسی بچی کی تصویر میرے کمپیوٹر اسکرین پر آگئی جس کے ہاتھ میں پانچ ہزار کا کڑک نوٹ تھااس کے نیچے چار سو لوگوں نے تبصرہ (comments) اور ہزار لوگوں نے پسندیدگی (Likes) کا اظہا ر کیا تھا۔ چند تبصرے کچھ یوں تھے۔ God bless you Sir, you are great

Saturday, June 21, 2014

افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں

گلگت بلتستان اسمبلی کے ارکان جن کی نظر میں مخلوط نظام تعلیم علاقائی تہذیب و تمدن اور روایات کا متصادم ہے سے چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہ سوالات مُلّا برادری ، اور ان کے ہم خیال لکھاری اور مذہب اور کے ٹھیکیداداروں کے لئے بھی ہیں جو مخلوط نظام تعلیم کو معاشرتی مسائل کا اہم پہلو قرار دیتے ہیں۔ کیا کرپشن علاقائی رسم و رواج کا متصادم نہیں؟کیا ہمارا رسم و رواج اقربا پروری کا درس دیتا ہے؟کیا ہمارا تہذیب غریبوں کا حق چھیننے کا حکم دیتا ہے؟کیا میرٹ کا قتل عام تہذیب کا کوئی پہلو ہے؟کیا علاقے میں مسلکی منافرت مخلوط نظام تعلیم پھیلاتا ہے؟کیا ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے مخلوط نظام تعلیم دیتا ہے؟کیا تاریخ کا جنازہ مخلوط نظام تعلیم نکالتا ہے؟کیا جنّت کے سر ٹیفیکٹ مخلوط نظام تعلیم بانٹتا ہے؟کیا 1988ء کا قتلِ عام اور انسانیت کی بے حرمتی مخلوط نظام تعلیم کے سبب ہوئی تھی؟کیا علاقے میں ہتھیار اور چرس مخلوط نظام تعلیم لے کر آیا؟ ان تمام سوالات کا جواب ’’نہیں‘‘ہے۔ حکمران ہر دور میں نظام تعلیم اور نصاب کے زریعے اپنے نطریات عوام پر مسلط کرتا ہے اس میں ملّا برادری اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مجوزہ فیصلہ بھی ایک ایسی کڑی ہے اور ملّا حسبِ معمول حکمرانوں کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ مذہب کو ٹشو پیپر کی طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں یہ شیخ و ملا کا پرانا وطیرہ ہے۔ وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ (روایات کے مطابق) مسلمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس احادیث پوچھنے آیا کرتے تھے۔ غزوات اور جنگوں میں مسلمان خواتین پانی پلایا کرتی تھیں۔رسول اللہ نے غزوہ بدر کے پڑھے لکھے قیدیوں کو مسلمانوں کو تعلیم دینے کا حکم دیا تھا مگر اس میں مردوں اور خواتین کو الگ الگ تعلیم دینے کا ذکر کہیں نظر نہیں آتا۔ پیغمبرِ اسلام نے فرمایا تھا’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ اس حدیث میں صرف مسلمان مرد نہیں کہا ہے بلکہ’’ مسلمان ‘‘ جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ ہمارے ایک محترم کالم نویس نے مخلوط نظام تعلیم کو منشیات کا استعمال، خودکشی، شادی سے قبل حمل، جنسی بے راہ روی، طالبات کی حق تلفی، خاندانی نظام کی تباہی، والدین کا اولاد پر عدم کنٹرول، طلاق کی بڑھتی شرع، معاشرتی و سماجی انتشار، اکیلی ماؤں کا کلچر، عدم برداشت، شوہر کو غلام سمجھنے کی روش، نفسیاتی مسائل اور زنا بالجبر جیسے مسائل کا زمہ دارقرار دیا ہے اوراسے فطری قوانین کا خلاف کہتے ہیں۔ ایسے افراد کا عورت کو برابری کے حقوق دینا کجا وہ عورت کو انسان ہی نہیں سمجھتے ہیں ان کے لئے عورت بچے پیدا کرنے والی مشین کے سوا کچھ نہیں ۔ ان تمام مسائل کی ذمہ داری مخلوط نظام تعلیم پر عاید کرنا سمجھ سے بالاتر اور بد دیانتی ہے۔ انہی کے مطابق صدیوں پہلے یورپ بھی مخلوط نظام تعلیم کا مخالف تھا ۔ مگر آج یورپ ایسی بے وقوفی نہیں کرتا۔ اگر وہ مسلمانوں کی طرح غیر اہم مسائل میں الجھا رہتا توسیارے تسخیر نہیں کر پاتا۔ ہمارے انحطاط کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آگے سفر کرنے کے بجائے اپنے’’ شاندار‘‘ ماضی کا گرفتار ہیں. بے علم بھی ہم لوگ ہیں، غفلت بھی ہے طاری افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں

یاسین میں بروشسکی شاعری کا ارتقائی دور

بروشسکی کا شمار عرض شمال میں بولی جانے والی قدیم ترین زبانوں میں ہوتاہے ۔ یہ زبان ہنزہ،نگر اور یاسین میں مختلف لب و لہجے کے ساتھ بولی جاتی ہے ۔ روایات کے مطابق سب سے پہلے اس زبان پر کام 1870کی دہائی میں کپتان بڈلف نے کیاپھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے اس زبان پر کام کیا ۔ ان میں لفٹنٹ کرنل لاریمر، جرمن پروفیسر جارج برگر(1962) ، علامہ نصیر الدین قابل ذکر ہیں۔ یہاں میرا مقصدبروشسکی کی تاریخ بیان کرنا نہیں بلکہ یاسین میں بولی جانے والی برشسکی شاعری کا ارتقاء ہے۔ مشہو ر محقق اور نقاد ڈاکٹر رام بابو سکیسنہ کے مطابق ’’دنیا کے تمام ادبوں کی ابتدا شاعری سے ہوئی ۔شعر ایک زندہ قوت ہے جس کا وجود نثر سے بہت پیشتر معلوم ہوتا ہے۔ قافیہ بندی اور تک بندی انسان میں ایک فطری چیزہے۔ انسان کو پہلے جذبات کا حس ہوتا ہے۔‘‘ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شاعری ہر زبان کی وسعت ، جدت،تازگی اور نئے پن سے اس زبان کو نکھارتی ہے ۔ یاسین میں بولی جانے والی بروشکی غزل کی عمر چھوٹی اور معیار بالکل سطحی تھی ۔شاعر حضرات لب و رخسار کے شکنجے میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے اور بیشتر اب تک جکڑے ہوئے ہیں۔ برسوں پہلے برصغیر کے ادیبوں اور شعراء کے بارے میں لکھا جانے والا شعر ان کے لئے دہرایا جا سکتا ہے۔ ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویسآہ بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار علی احمد جان اقبال کا یہ شعر اس پورے منظر نامے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ یہ حال دیگر بہت ساری زبانوں کا بھی ہے اور اس کے کئی وجوہات ہیں ۔اول یہ کہ خصوصاً یاسین میں غز ل گو یا شاعری کو لفنگا،لوفراورناکام شخص تصورکیاجاتا ہے او ر لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ دوم کچھ زندگی سے بیزار لوگ جو عملی زندگی میں نا کام ہیں، آوارہ گردی کرتے ہیں ،ردیف قافیہ ملا کر البم تیار کرتے ہیں اور شاعر بن جاتے ہیں ۔ یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کہ زیادہ تر لوگ گلو کار کو ہی شاعر سمجھتے ہیں ۔ سوم پڑھے لکھے حضرات اس میدان میں آنے سے کتراتے ہیں کہ لو گ انھیں بھی لفنگا ،لوفر سمجھیں گے ۔دوسری الفاظ میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایک مافیانے قبضہ جمایا ہواہے ۔ مگر پچھلے چند برسوں سے خوش قسمتی سے پڑھے لکھے نوجوانوں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھنا شروع کیا ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری میں میں سماجی ،سیاسی اور معاشرتی پہلووں اور مسائل کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ اسکی مثال بروشکی غزل کے ماضی میں کہیں نظرنہیں آتی ۔ ادب کے ناقدین اور محققین کے مطابق غزل کے اشعار مضامین کو اختصار سے بیان کرنے میں مثالِ آپ ہیں اختصار پسندی تیزی سے فروغ پاتاہوا عالمی رویہ ہے۔ یہ بھی واضع ہے کہ ہر تخلیق اپنے سماج کی حدود میں رہ کر اظہارِ خیال کرتی ہے ۔مگر اس سماج کی وسعت کا تعین تخلیق کار کے فہم و ادراک کی وسعت کے بلند و پست اور وسیع و محدود ہونے پر ہے ۔ ایک شخص کھڑکی کی جالی کی ڈیزائن پر غور کرتا ہے جبکہ دوسرے شخص اسی کھڑکی سے باہر تاحد نظر پھیلے منظر اور رواں زندگی میں امکانات کے نئے زاویے تلاش کررہا ہوتا ہے گویا تخلیقی اڑان ہر تخلیق کار کی مختلف ہوتی ہے ۔کسی معاشرے میں سماجی اور تہذیبی تبدیلی تخلیقِ اظہار میں تبدیلی سے عبارت ہے۔ فرد کا انفرادی شعور ،سماج کے اجتماعی شعور پر اثر اندا ز ہوتا ہے ۔مگر اس تبدیلی کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے تخلیق کار کا طاقت ور علمی اور دانش ورانہ پسِ منظر سے ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے عوامل کے ادراک اور اس کے مابعد اثر پزیری کو سمجھنے والی بالغ نظری کا حامل ہونا ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے بروشکی شاعری کا منظرنامہ آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا جارہا ہے توقع ہے کہ ہے کہ یہ چنگاری بروشکی غزل کے مستقبل کو روشن کرنے میں اہم کردار اداکریگی ۔ اس کی ایک مثال نوجوان شاعر ریاض ساقی ؔ کی یہ غزل ہے ۔ یاد رہے کہ یہ جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔ محبت نانی مو دُعا غا سِمان محبت تاتی تے وفا غا سیمان محبت چھاس نیموق پونر یعووشوم محبت دن ایچوم سُرما محبت اُلچی چِیپ آ اُن نوکوئچ محبت عمرِ سوداغا سیمان محبت اِت نیلے گادیرو ریاضؔ محبت علمے محرکا غا سیمان (محبت کیاہے؟ محبت ماں کی دعا کو کہتے ہیں محبت باپ کے شفقت کو کہتے ہیں۔ بنجر زمین اور جھاڑیوں میں پھو ل اگانے کع محبت کہتے ہیں ۔ اپنے محبوبی کوایک جھلک دیکھ کر عمر بھرکے لئے خود کو اس کے سپرد کرنا محبت ہے۔ محبت!چل ہٹ پاگل ریاض ، محبت علم کے اجتماع کو کہتے ہیں۔ ) اُردو ادب کے محقیق کے مطابق غزل میں تفکر ، حقیقت پسندی اور اظہار کی ہونا لازمی ہے یہ چیزیں بروشکی غزل میں بھی اب نظر آنے لگی ہیں ۔ جیسا کہ بشارت شِفع اپنی شاعری میں انسان کی فطرت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں غونڈلے جی نِیانے چھیونی میما گِری دُو تھاریس نیتے چھیو نی میما سے گا می گیچامان بے اِسقایامان چھینے فالو نوکووا دا دِیا کا ( فاختے کو مار گرا کر ہم خوش ہوتے ہیں، ہرن کو اس کے چھوٹے بچوں سے جدا کر کے خوشیاں مناتے ہیں۔ حتیٰ کہ چڑیا کی ننھی جان کو بھی نہیں بخشتے۔ ) اسے وجاہت شاہ نے اپنی گائیگی سے مذید خوبصورت بنایا ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ روایتی اور حسنِ جاناں کی تعریفوں سے ہٹ کر سماجی اور معاشرتی مسائل کو غزل میں جگہ دی جانے لگی ہے جسے بروشکی شاعری کا ارتقاء کہا جاتا ہے ۔ (جاری ہے)