Thursday, December 22, 2011

....کیا مال ہے......



’’اوئے اجمل آ ج بھی ’’وہاں‘‘ چلتے ہیں۔‘‘ وجاہت نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ، شرارت بھری نظروں سے اشارہ کیا. ’’ارے ہاں. اب تو میں روزانہ وہاں جاونگا. اتنی اچھی جگہ بھلا اور کہاں ہے۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا؟‘‘، میراقہقہہ گونجا. میں اور وجاہت ایک ہی کمپنی میں پچھلے سات سالوں سے نوکری کررہےہیں. وہ میرا ہم عمر ہے ، چالیس سال کا۔ اس کا اور میرا گھر بھی ایک ہی رُوٹ پر آتا ہے اسی لیے ہم دونوں میری بائک پر آفس آتے جاتے ہیں۔ ہم دونوں کی طبعیت کافی ملتی جُلتی ہے. کمپنی میں اکثر ڈانٹ بھی دونوں کو ایک ساتھ اور ایک ہی طرح کے "کارناموں" پر پڑتی ہے. ہماری "حرکتوں" کی وجہ سے باس کو اکثریہ کہتے ہوے سنا جاتا تھا کہ "یہ دونوں تو چالیس سال کے بچے ہیں". کئی مرتبہ میں نے اس عادت کو چھوڑنے کا عہد کیا لیکن وجاہت سے ملتے ہی تمام باتیں اور وعدے بھول جاتا . ’’اجمل ادھر آ جلدی.۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھ سامنے۔۔لال جوڈے میں آج تو بڑی ذبردست لگ رہی ہے‘‘۔ میرے بیٹے کی عُمر کا لڑکا۔ مجھے استقبالیہ کاونٹر پر آج آنے والی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا. یہ کوئی نئی بات نہیں تھی. کمپنی کے تمام لڑکے عمو ماً مجھ سے اور وجاہت سے اِسی انداز میں بات کرتے ہیں. اس میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں ، ہم خود بھی اسی طرح عُمر کی حدوں کو بالائے طاق رکھ کر "فری ماحول" میں بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ عجیب سا بھی لگتا ہے. چھُٹی کے بعد ہم دونوں اُسی پرائیوٹ اسپتال کے پاس آگئے . حسبِ معمول یہاں بڑا رش تھا۔ ’’اُدھر کھڑی کر گاڑی چھاوں میں‘‘ وجا ہت نے سامنے اشا رہ کرتے ہوئے کہا۔ میں موٹر سائکل کھڑی کر کے آگیا اور ’ہم دونوں"چہل قدمی‘‘ کرنے لگے ۔ ’’وہ دیکھ یاااااار ....وجاہت نے یار پر زور دیتے ہوے کہا....." ۔۔۔سبحان اللہ ۔۔کیا مال ہے یار.....، چل اُدھر چل ... چل نا یار جلدی..... ‘‘. ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی، ادھیڑ عُمر خاتون کے ساتھ ہمارے آگے آگے چل رہی تھی۔ وجاہت سر تا پا اس لڑکی کے بدن کا جائزہ لے رہا تھااورآنکھوں ہی آنکھوں میں مزے لینے کے ساتھ ساتھ چھٹخارنے دار کمینٹری بھی کر رہا تھا۔ ’’ اُف کیا چال ہی۔۔۔کیا نقشہ ہے ۔۔۔ بنانے والے نے کیا چیز بنائی ہے ......۔کاش۔۔۔۔۔۔۔‘‘.وہ بولتاجارہا تھا اور ساتھ ساتھ میں بھی داد دے رہا تھا۔ جواباً میں بھی ’’اچھے اچھے جملے‘‘ بتا رہا تھا حسبِ عادت۔ ۔۔۔۔۔ تھوڑی دُور جا کر وہ دونوں کسی وجہ سے پلٹ گئیں۔۔ میں تو دیکھتا ہی رہ گیا، جتنا جاذِب وپُرکشش اسکا بدن تھا ، اس سے کئی گُنا ذیا دہ خوبصورت اور دِلکش اس کا چہرہ۔ ۔۔۔میرے منہ سے بے اختیار ماشااللہ نِکلا۔۔ ۔ اسی لمحے میں نے وجاہت کو غشی کھا کر گرتے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے وہ لڑکی بھاگ کر آئی اور وجا ہت سے لِپٹ کر پا گلوں کی طرح رو نے لگی. وجا ہت بے ہوش پڑا تھا. اور وہ لڑکی دیوانہ واراس سے لپٹ کر رو تے ہوے کہ رہی تھی، ابو ... ابو .... کا ہوگیا آپ کو ... آنکھیں کھولو نا ابو ... آنکھیں کھولو نا"......میرے حواس منجمد ہو گیئے. سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟؟ نظریں بچا فورآ وہاں سےنکل پڑا۔۔ اپنی ٹانگیں گھسیٹتے ہوے. زندہ لاش کی طرح .

Monday, December 19, 2011

دسمبر کا آوارہ جھونکا...۔۔.....



دسمبر کی ہوائوں کا
ایک آوارہ جھونکا
رات کی اندیھروں میں
میری آنکھوں کے در پر
دستک دینے آتا ہی
ہر دفعہ جب آتا ہی
نامراد نہیں لوٹت

Saturday, December 17, 2011

.........بہت دُور........



میں تم سے دُور کیوں ہوں؟
تمہیں دکھ ہے بہت اس کا؟
وجہ تم جاننا چاہتے ہو؟
تو سُن لو
میں جب نظریں ملاتا ہوں
جھکانا بھول جاتا ہوں
لبوں سے جو نہیں کہتا
وہ نظروں سے بتاتا ہوں
قُربت جس سے ہو
شہہ رگ کے پاس ہوتا ہوں
کسی سے دُور جاتا ہوں
تو اتنا دُور جاتا ہوں
پلٹ کر بھی نہیں دیکھت

........وادیِ احساس.........



آج پھروادیِ احساس سے گُزرا
عجب دِلکشی تھی
پُر اسرار خامُشی تھی
بارہا مِلنے کے باوجود
بڑی اجنّبیت تھی
سنّا ٹا تھا
خوفناک تنہا ئی تھی
جانے پھر کب ملوِںگا؟
لیکن جب بھی ملوِںگا
مجھے اِتنا یقین ہی
ارادے باندھ کر ہی
لُوٹ آوںگا

............دوستی ..........


to all my friends

دوستی نہیں مرتی
نہیں ہے یہ خواب کی طرح
ریزہ ریزہ ہو کر جو بکھر جائی
یہ نہ زندگی جیسی
جو وفا نہیں کرتی
یہ نہ تا ریکی جیسی
جو سب کچھ چھپاتی ہی
ہے نہ روشنی جیسی
سب عیاں جو کرتی ہی
ہے نہ یہ سحر کا سا
جو بے خوابی پھیلاتا ہی
پھول کا مثال کیوں دوں؟
یہ بھی مرجھا جا تا ہی
بے مثال ہے دوستی
جسکی کوئی مثال نہیں
اور کوئی مثال کیوں دوں
بے مثال ہے دوستی
ٓآز: علی احمد جان اطہ

احسان۔.........۔..........


dedicated to all artist around the world
اک عمر گنوادی لوگوں نی
پر اتنی سی بات نہ جان سکی
اک چمکتا منظر
جو ہم کو دِکھتا ہی
اسے اپنی پنسل کی نوک تلی
ہم کیسے قید کر لیتے ہیں
کیا وہی منظر
اوروں کو نہیں دِکھتا
رب کا یہ احسان ہے ہم پر
ہماری نگاہیں جو منظر قید کر لیتی ہیں
دوسرے صرف دیکھتے ہیں
از: علی احمد جان اطہر

...........دُعا...


التجا ہے یہ ربّ سی
جب تم
مٹی کو بھی چھُولو تو
سونابن کے دمک جائی

.......دسمبر اور تیری یادیں



دسمبر کی ٹھنڈی شام کو
مین اور تیری یادیں
ایک لحاف میں بیٹھے ہیں
بے قراری کا عالم ہی
تم سے ملنے کی خواہش
دل میںجاگ اُٹھتی ہی
باقی دل کے سب ارماں
چکناچُور ہوجاتے ہیں
اِک خلِش میرے دل میں
جو اُداس کرجاتی ہی
ان اُداسیوں میں بھی
بے پناہ لذت ہی
اس لئے ان یادوں کو
میں دوشِ دسمبر پر
اپنے پاس بُلاتا ہوں
اور تم میں کھو جاتا ہو

نایاب پانی



مر ے ہمدم یہ قطری
جو آنکھوں سے رواں ہیں
بہت تم مرتبت دینا
بہت نایاب پانی ہی
اسے تم اہمیت دینا
انھیں گِرنے سے قبل تم
پلکیں اپنی بِچھا دینا
بہت نایاب پانی ہی
یہ خالص غم کے آنسو ہے

انتظار۔۔



وقت کی کمزور ٹہنی پر
اپنے آشیانے سے دور بہت
میں اس بُلبل کی مانند بیٹھا ہوں
جسے اندیھری رات کا خوف ہی
کسی شاہین کے وار کا ڈر ہی
میں بھی ویسے ہی سہما بیٹھا ہوں
شام کی تیز ہوائیں ٹہنی سے
اپنے طاقت کو آزماتی ہیں
جھولتی بَل کھاتی ٹہنی پر
بڑی مشکل سے سنبھل بیٹھا ہوں
کسی جُگنو کی راہیں تکتا ہوں
ٓآشیانے تک جو پہنچادے مجھی
منتظر ہوں اس مسیحا کا
جو آندھیوں بچا لے مجھی

Wednesday, November 16, 2011

ایک سوال


آج گرمی کی شدت زیادہ تھی۔سورج اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ ہم پر شعلے برسا رہا تھا۔ یونیورسٹی میں میںاپنے چند دوستوں کے ہمراہ ایک سیاسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کافی دور نکل آیا تھا۔ زیادہ باتیں کرنے کی وجہ سے میرا حلق سوکھ گیا تھا۔اور میری نظریں کسی بھوکے شکاری کی طرح پانی تلاش کر رہی تھی۔ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے کے مصداق مجھے ایک ڈیپارٹمنٹ کے باہر لگا ہوا پانی کا cooler نظر آیا۔ اور میں دنیا جہاں کو بھول کر اس کی طرف بڑھ گیا۔جہاں پہلے سے تین چار افراد اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے میں بھی لائن میں لگ گیا۔ کولر کے پاس ایک پلاسٹک کا گلاس تھا جسے زنجیروں سے اس طرح باندھا گیا تھا کہ یہ خون خوار درندے کی طرح انسانوں کو چیر پھاڑ دیتا ہو۔ گلاس کو ایک chain کے زریعے کولر کے ساتھ باندھا گیا تھا۔اور کولر کو ایک موٹی chainکی مدد سے لوہے کے دروازے کے ساتھ باندھ کر تالا لگا دیا تھا۔ چھوٹے قد والے حضرات کو پانی پینے میں خاصی دشواری بھی محصوص ہو رہی تھی کیوں کہ chain کی لمبائی اتنی زیادہ نہیں تھی۔
قارئیں اس بندھے ہوے گلاس نے میرے زہن میں کئی سوال پیدا کر دئے کہ یہ گلاس بندھا ہو کیوں ہی؟؟؟؟اس کا آسان سا جواب ہے کہ کوئی اسے اٹھا کے نہ لے جائے یا پانی پینے کے بعد ردی کی ٹوکری کی نذر نہ کے دے یہ گلاس چیخ چیخ کے بتاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کتنا مہذب ہے ۔ایسے کئی مثالیں آپ کے اطراف میں نظر آتی ہیں، ہوٹل کے باہر رکھی کرسیوں سے لیکر دوکانوں کے باہر لگے جنریٹر ، حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو زنجیروں سے باندھ کر تالے لگا دئے جاتے ہیں۔
یہ گلاس کسی کھلی مارکٹ میں نہیں بلکہ ملک کے عظیم درس گاہ کے اندر قیدو بند کے صعوبتیں برداشت کررہا ہی۔جہاں پر موجود تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے ڈھوب مرنے کا مقام ہے جس ملک کی بڑی یونیورسٹی میں ایک پلاسٹک کا گلاس محفوظ نہیں ۔ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ملک کی سڑکوں پر عوام کی جان کیسے محفوظ ہو سکتی ہی۔ ہمارا ایک دوسرے پر بھروسے کا یہ عالم ہے کہ ایک گلاس جس کی قیمت دس روپے ہیں ، کو زنجیروں سے باندھے رکھا ہی۔ یہ گلاس ہم سب سے ایک سوال پوچھتا ہی۔
’’کیا تمھاری جان محفوظ ہے ؟؟‘‘اس کا جواب بھی خود ہی دیتا ہے ۔
’’نہیں ۔۔۔۔جب میں محفوظ نہیں تو تم کیسے محفوظ ہو سکتے ہو!!!‘‘

Tuesday, October 18, 2011

تعلیم اور ڈگری کی بے حرمتی


تعلیم مقدس اور شعبہء ہی۔کسی بھی ملک کی معا شی و معاشرتی ترقی تعلیم کے زریعے ہی ممکن ہی۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں اس شعبے کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔نہ صرف نظرانداز کیابلکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ا س کواور اس سے شعبے سے وابسطہ لوگوں(اساتذہ و طلبائ)استعمال کیا گیاجو ہنُوز جاری ہی۔پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس شعبے کو فٹ بال بنا دیااور گول اسکورکرنے کے لئے اس شعبے کی پُشت پر اتنی لاتیں ماردی کہ یہ اُٹھ چلنے سے قاصر ہی۔
ہمارے ملک میں اس شعبے کی مثال اس ہیروئنچی کی سی ہے جو ہمیشہ نشے میں دھت لڑکھڑاتا پھرتا ہے کیونکہ حکمرانہر دفعہ اس کی رگوں میں نشے کے انجکشن لگادیتے ہیں کبھی نا اہل انتظامیہ کی صورت میں تو کبھی جعلی ڈگری ہولڈرز کی شکل میں۔باقی کسر تعلیمی بجٹ کو کم کر کے پورا کر دیا ہی۔جو ۸۰۰۲ ؁ء میں ۹۸.۲تھا کو گٹھا کر ۵۲.۱کر دیا ہی۔ؤا س شعبے کے مذاق کی ایک تاذہ مثال وزیر داخلہ رحمان ملک ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیکر کیا ہی۔یہ ڈرامہ منگل کے روز گورنر ہاوس میں رچایا گیااور یہ فرمایا گیا کہ ڈاکٹر حمان ملک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیے ہیں اور کراچی شہر میں امن کی بحالی کے لئے بہترین خدمات انجام دیے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے ہر سطح پر مختلف تنازعات کو حل کیااور دوستی کو فروغ دینے کی بڑی کوششیں کیں۔
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم نے فرمایا کہ رحمان ملک نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں۔ڈاکٹر حمان ملک کی گاون پہنے ، تصویر جس میں پیرزادہ قاسم سے ڈگری وصول کر رہے ہیں، میرے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گئی ہے کہ ڈاکٹریت کی ڈگری کا حصول بھی سیاستدانوں کے لئے کتنا اسان کام ہی؟؟ زرداری اور گورنر کو ئی اور ایوارڈبھی دے سکتے تھے لیکن اس شعبے کو کیوں چنا گیا؟؟ تعلیم کے ساتھ ہی مذاق آخر کیوں؟؟؟ ہر حکومت اسی طرح ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں تقسیم کرتی رہی تواس ڈگری کی کیا قدر رہیگی؟؟ اور اب ہر سیاستدان جھو ٹے دعوے اور بیانات دیکر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حصولی کے لئے بھر پور کوششیں کریگا۔
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم نے شاید اس لئے یہ قدم اٹھایاہو کہ موجودہ حکومت اور رحمان ملک انھئں پھر سے وائس چانسلر تقرر کریں کیونکہ ان کامدت پورا ہونے والا ہی۔کراچی یونیورسٹی کی اسا تذہ کی تنظیم (کے ۔یو۔ٹی۔ایس)کے صدر ڈاکٹر عابد حسین کی حالیہ انٹرویو سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس سلسلے میں ا ن سے مشاورت نہیں کی گئی اور کراچی یونیورسٹی کے ۰۰۵ ریگولر اساتذہ میں سے ۰۰۳ نے اس کے خلاف احتجا ج ریکارڑ کر وایا ہی۔میری یونیورسٹی انتظا میہ ، اساتذہ اور طلباء سے گزارش ہے کہ وہ اس اقدام کے خلاف اپنی آواز بلند کرے تاکہ ائیندہ اس مقدس شعبے کے ساتھ اس طرح مذاق نہ ہو۔
اگر خدمات کے اعتراف میں ڈگری دینی ہی تھی تو عبدالستار ایدھی، انصار برنی ، عمران خان او ر کئی ایسی شخصیات ہیں جو حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرتے ہیں ۔ پیرزادہ قاسم صاحب نے اس ڈگری کی توہین کی ہے جس انسان کو سورہ فاتحہ کی تلاوت نہیں آتی ہواسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کرا س ڈگری کی توہین کی ہی۔


علی گل جی(علی احمد جان

Tuesday, October 11, 2011

my poetry


عجب انداز مِرے چاہنے والوں کا ہی
ہر صبع رختِ سفر اپنا بدل دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تُو بھی اووروں کی طرح مجھ سے نِگاہیں نہ بدل
مجھے یہ پَل، یہ لمحے بہت پیارے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ربطہ ہے مجھ سے مِرے دوستوں کا اِس طرح
جیسے فلک پہ چاند سِتارے ہوں ساتھ میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزقلم: علی احمد جان اطہ

do sher


اِک عمر بِیت چلی تھی ساتھ ہنستے ہنستی
انہی لوگوں کا اَب انداز نِرالا دیکھا

جب پڑی اُن کی نظر ،میرے اشکوں پر
اُن کی آنکھوں میںعجب نُور اُجالا دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شبِ تنہائی سے میری محبت اِس قدر کیوں ہی؟
لِپٹ کر اس سے میری ہر رات بسر ہوتی ہے
آزقلم: علی احمد جان اطہر

माय poetry


مِری قسمت بھی کبھی ساتھ نہ دیتی اطہر
وہ بھی غیروں کی طرح وار کیا کرتی ہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصروف ہوں میں حلقئہ یاراں میں اس طرح
سوکھا ہوا اِک پیڑ ہو صحرا کے وسط میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوںہی اپنوں کی بے رُخی دیکھ کر
جل اُٹھا ہے وجود پھر میرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزقلم: علی احمد جان اطہر

شب کا ہمسفر


تما م شب خوشیاں
اس کے چہرے پر
رقص کرتی رہی
ناچتی ، گنگناتی رہی
کیونکہ
شب کے رخصت ہونے تک
سورج کے نکلنے تلک
آ ج پھر میں
مرحو میوں کی چادراوڈھی
اپنی خوشیوں کی لاش لیی
اس کا ساتھ نہ چھوڑونگا
اسے گلے لگائو نگا
اس کا ہمسفر بن جائونگا
علی گل جی (علی احمد جان اطہر

اے اہلِ چمن ذرا سوچیئی
ذرا سوچیئے اس شہر کے با رے میں
خوف کی دوڈتی لہر کے با رے میں
ہر طرف ظلم کا جو راج ہی
نا حق خون کے بہتے نہر کے با رے میں
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئی
لا شیں گر رہی ہیں جو چار سوُ
اس خونی پہر کے بارے میں
بِنتِ حوا عریاں ہے یاں
کیجئے کچھ اس جہل کے بارے میں
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئی
چونک اٹھتے لوگ اپنے سائے سی
سو چتے ہیں جب اس دہل کے بارے میں
ماتم کناُں ہیں فرشتے بھی
اس وحشت و قہر کے بارے میں
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئی
علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

ایساراہی ہوں!!


ایساراہی ہوں!!
ہے مجھے بھی شوقِ منزل مگر
ہر منزل مجھ سے دُور ہی
چلتا ہوں جب اس کی جانب
اندیھری راہ کی تا ریکی
مرا ہمسفر بن جاتی ہی
یوں ہم اکھٹے چلتے ہیں
آدھے راستے کے بعد
مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہی
وہ بھی مجھے گلے لگاتی ہی
میں اپنی منزل کو بھول کر
تاریکی سے محبت کرتا ہوں
پھر ہم دونوں کا بچھڑ نا
مشکل ہی نہیں
نا ممکن ہو جاتا ہی
لُوٹ جانا بھی مشکِل ہو تا ہی
سوچوں میں ڈوبا رہتا ہوں
رستہ ہی چُنتا رہتا ہوں
میں اِک ایساراہی ہوں
ہاں ایسا ہی راہی ہوں
زندگی کی شاہراہ پر
علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

مگر اب۔۔۔۔۔



کبھی ہم مسکراتے تھی
فضا میں چہچہا تے پرندوں کی صورت
گیت گا تے تھی
جو ہم سے دور ہیں اب، وہ
ہمارے ساتھ ہو تے تھی
زمانے بھر کی رنجیشیں
ہم ان سے دور ہوتے تھی
رواں آنکھوں سے جو اشک ہیں
خوشی کے آنسو ہوتے تھی
طویل بے چین یہ راتیں
سہانے خواب ہوتے تھی
مرے اندر کا بنجر پن
کبھی شاداب ہوتے تھی
کبھی ہم مسکراتے تھی
مگر اب ۔۔۔۔۔۔۔۔
علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

آخر کیوں


آخر کیوں ایسا ہوتا ہی۔۔؟؟
دھماکے چار سُو ہوتے ہیں
با رود کی بُو سے
یاں کی فضا مہکتی ہی
اور کہیں
خون کی ندیاں بہتی ہیں
لا شیں گِرائی جا تی ہیں
آخر کیوں ایسا ہوتا ہی۔۔؟؟
جل رہا ہے شہر شہر
قریہ قریہ دھواںدھواں
محفوظ ہیں نہ مسجد یں
نہ نمازی کو چین ہی
ہر سُو عجب سا خوف ہے
سجدہ کرتے وقت بھی ذہنوں میں
خوفِ خدا سے پہلے
دھما کے کا ڈر ہوتا ہے
آخر کیوں ایسا ہوتا ہی۔۔؟؟
رواں ہیں خون کی ندیاں یاں
کہیں مذہب کے نام پر
کہیں غیرت کے نام پر
نفرتوں کے یہ بیج
پھر ہلاکتوں کی فصل کٹتی ہی
آخر کیوں ایسا ہوتا ہی؟
آخر کیوں۔۔۔؟؟ آخر کیوں۔؟؟ علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

Monday, October 10, 2011

me kafir hon ager Islam ye hy


مُلک ایک عجیب ، خوفناک صورت حال سے دوچار ہی۔مہنگائی، دھماکی، ٹارگٹ کلنگ اور امریکہ کی دھمکیوں نے عوام کوذہنی مریض بنا دیا ہی۔’’شک‘‘ نے یہاں کے عوام کی ذہنوں میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہی۔ہر انسان دوسرے کو شک کی نِگاح سے دیکھتا ہے کہ یہی خودکش بمبار ہی، یا کسی مولوی کانوازاگیا جنت کا سَند یافتہ مسلمان جو دوسرے مسلمانوں کو قتل کر کیا ’ثواب‘ کمانے میں مصروف ہیں۔ بقول شا عِر
جانے کب کون مجھے مار دے کا فر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان بنا پھرتا ہی
اِنتہاپسندی کی یہ آگ ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کی لگائی ہوئی ہے جو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں اور مدرسوں میں حوروں کا جلوہ دیکھنے کے لیے بے چین بمبار ہمارے حکمران اور انکل سام کی مشترکہ پیداوار ہیں۔کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کا ’’ٹیسٹ میچ‘‘ جو بظاہر دو سیاسی جماعتوں کے درمیان کھیلا جاتا ہی، جونہی رُک گیا تو کوئٹہ کی وادی بے قصور زائرین کے لہو سے لال ہو گئی۔ یوں خون کی یہ ہولی ہنوز جاری ہی۔گزشتہ کچھ سالوں سے فرقہ پرستی کا زہر پاکستانی قوم میںسرایت کر چکا ہی۔ایک مسلمان دوسرے کلمہ گو مسلمان کو قتل کر کے خود کو جنّت کا حق دار کہلوانے پربضد ہی۔مدرسوں میں ذہنی تربیت(برین واش) کچھ اس طرح دی جاتی ہے کہ دوسرے فرقے اور مسلک کے پیروکاروں کو قتل کرنے کی نت نئی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔مولوی حضرات اِن معصوم ذہنوں میں نفرت کا زہر بھر دیتے ہیں اور قرآن شریف کی اصل تعلیم کے بر عکس اُنھیں فرقہ واریت کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں واضح طور پر فرقہ واریت کی لعنت سے دور رہنے کا حکم دیا ہی۔حکم ِ خدا وندی ہے کہ:۔
ترجمہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘
اس واضح فرمانِ الٰہی کے باوجود کچھ لوگ اس لعنت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ دی۔گزشتہ ہفتے ایران جانے والے شیعہ زائرین پر گولیاں برسا کر شہیدکرنا بھی اسی سلسلے کی اک کڑی ہی۔کیا اسلام اس عمل دیتا ہی؟ایسے ہی لوگوںکی وجہ سے آج عالمِاسلام اور خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔آج پاکستان اور پوری اُمتِ مسلمہ ایسے نام نہاد مسلمانوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہی۔فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لہر نے پوری دنیا کو ہم سے دور کر دیا ہی۔
مذہبی فرقوں کے سربراہان ایک دوسرے پر لفظوں کے ایٹم بم گرانے میں مصروف ہیں۔ہر فرقے کے پاس دوسرے کے لیے کُفر کا فتویٰ موجود ہی۔کوئی ’’یارسولؐاللہ‘‘ کہنے والے کو کافر کہتا ہے تو کوئی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے والوں کو کفر کا فتویٰ دیتا ہی۔کچھ لوگ موچھیں منڈوانے والوں کو دائرئہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں تو دوسرے لمبی داڈھی رکھنے والوں کے خلاف زہر اُگلتے ہیں۔خود غرضی کی اِنتہا یہ ہے کہ قرآن پاک کی ایتوں اور احادیث کو بھی نہیں بخشا ہی،جنہیں اپنے مقصد اور مطلب کے لئے اِستعمال کرتے ہیں۔آ ج ہم اصل اسلام سے کوسوُںدُور نکل آئے ہیں۔آ ج اسلامی معشیت، اسلامی فِقہ ،اسلامی ثقافت سب بدل گئے ہیں۔ ہم حضورؐ کی دین سے اتنی دُور نکل آئے ہیں کہ ہمارے اعمال دَورِجہالت سے مماثلت رکھتے ہیں۔
ٍ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبباسلام میں کی جانے والی مِلاوٹ ہی،جِسے اپنے مقصد کے لئے کی گئی ہی۔ شائد یہی ’’خود ساختہ اسلام‘‘ ان کو قتل و غارت کی تعلیم دیتا ہے ورنہ اسلام نے ایک انسان کی قتل کو پوری انسانیت کی قتل کا مترادِف قرار دِیا ہی۔ مذہبی فرقوں کے سربراہان کو چاہئے کہ وہ صرف ما ضی کی عا لیشان تاریخ و واقِعات کو خطبوں میں دُہرانے کے بجائے اس پہ عمل کریں اور فرقہ واریت کے ذہر کو معاشرے سے نکال پھینکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تاکہ مستقبِل میں ایسے درد ناک واقعات رونما نہ ہو۔

Saturday, September 24, 2011

اسلام دہشت گردوں کا مذہب؟؟؟


ہاتھوں میں ڈنڈے اور
Chain
لئے دس بارہ لڑکے دوڑے آرہے تھے ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی۔ ایسی چمک جو قصائی کی آنکھوں میں گوشت کاٹنے سے پہلے ہوتی ہی۔ یہ لڑکے پنجابی فلموں کے بدمعاشون کی مانند گندی اور غلیظ گالیاں دے رہے تھے اور ساتھ ہی ’’نعرہ تکبیر‘‘ کا نعرہ بھی فضا میں گونج رہا تھا۔ آتے ہی کچھ لڑکوں پر دھاوا بول دیا۔ ڈنڈی، Chain، پتھر اور جو بھی چیزیں ان کے ہاتھوں میں آرہی تھی ان سے دوسرے لڑکوں پر وار کررہے تھی۔
یہ کسی پنجابی فلم کا ’’سین‘‘ نہیں اور نہ ہی یہ لڑکے ان پڑھ گوار ہیں۔ یہ ملک کے ایک عظیم درسگاہ کے طالب علم ہیں جو ’’تبلیغ اسلام‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کو بچانے کے لئے ’’جہاد‘‘ کررہے ہیں۔ ایک ایسا جہاد جس کا درس نہ کچھ نبیؑ دیا اور نہ ہی ہمارا مذہب اس اس طرح کے درس کا محتاج ہے کیا یہ کسی مہذب معاشرے کر ذیب دینا ہی؟؟ نہیں بالکل نہیں۔ اسلام کا مطلب ’’امن‘‘ اور ’’سلامتی‘‘ کے ہیں۔ دوسرا سوال کیا اسلام کو پھیلانے میں انبیاء کرام اور ہمارے بزرگوں نے (نعوذ باللہ) ایسے کام کئی؟ اس کا جواب ہی‘‘ نہیں بالکل نہیں‘‘۔
آج ہم صرف نام کے مسلمان ہیں۔ اسلام اور انسانیت ہم سے کوسوں دور اور دور تر دور ہوتی جارہی ہی۔ مسلمانوں کی تاریخی واقعات کو صرف جمعہ کے دن ایک کان سے سنُ کر دوسرے سے نکال لیتے ہیں ان پر عمل کرنا تو کجا۔ ہم قرآن مجید کا باآواز بلند تلاوت کرکے ثواب کماتے ہیں لیکن اس میں موجود ہدایت خداوندی پر عمل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ آج کے مسلمان خود غرضی اور تعصب کے آخری حدوں کو چھوڑ رہے ہیں۔
یہاں تک کہ ہم نے اللہ کی کتاب اور نبیؐ کے احادیث کو بھی نہیں بخشا۔ جسے اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا اسلام کو دہشت گردوں کا دین اور پاکستان کو دہشت گردوں کا ملک کہتی ہی۔ اس کے ذمہ دار آج کے مسلمان ہیں۔ آج کے مسلمانوں کے قول و فعل کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ حضورؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور انہی کی وجہ سے اہل یورپ اسلام اور مسلمانوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کو بنیاد بناکر دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب کہتے ہیں اور مسلمانوں کو پوری دنیا میں شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہی۔
نبیؐ کی حیات طیبہ پورے عالم اسلام کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہی۔ تاریخ گوہ ہے کہ آپ کے دور میں خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر پورے مکہ کو فتح کیا تھا۔ لیکن آج کے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں بے دردی سے کہیں مذہب اور کہیں غیرت کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ کیا یہ وہی اسلام ہے جس کا درس بنیؐ نے دیا تھا؟؟؟ ہم اسی بنیؐ کے پیرو کار ہیں جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا تھا؟؟؟ یہاں میں ایک واقع مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
حضورؐ پر ایک بڑھیا روزانہ کوڑا پھیکا کرتی تھی۔ آپؐ نے کبھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس بڑھیا سے بدلہ لیا۔ آپؐ چپ چاپ مسکراکر گزر جاتے تھی۔
ایک دن آپؐ وہاں سے گزر رہے تھے لیکن خلاف معمول بڑھیا وہاں موجود نہیں تھی اور آپؐ پر کوڑا نہیں پھینکا۔ آپؐ اس کی خبر گیری کرنے اس کے گھر چلے گئی۔ بڑھیا اس دن بیمار پڑی تھی جو حضورؐ کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئی۔ آپؐ نے اس کی عیادت کی۔ بڑھیا آپؐ کی فراخدلی اور عظمت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگی۔
نبیؐ کریم کے طریقہ تبلیغ اور آج کے مسلمانوں میں کتنی مماثلث ہی؟ یہاں میرا مطلب ان شرپسند لوگوں سے ہے جو اسلام کے ٹھیکدار بنے بیٹھے ہیں اور اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔
آج کے اعتدال پسند اور روشن خیال مسلمان ایک مسلح اور خونخوار اقلیت کے خوف میں مبتلا ہیں اور پورا پاکستان اس کی لپیٹ میں ہے یہ لوگ دنیا میں جنت کے ’’سند‘‘ (سرٹیفکیٹ) تقسیم کرتے ہیں اور ملک و مذہب کے ٹھیکدار بنے بیٹھے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھ اور قائداعظم کو ’’کافرا اعظم‘‘ تک کہا۔ لیکن آج ’’جنت‘‘ اور ’’حب الوطنی‘‘ کے ’’سرٹیفیکٹس‘‘ لئے بیٹھے ہیں۔ لگتا ہے ہم پھر اسی Stone age اور جاہلیت کی طرف محو سفر ہیں جہاں عورتوں کو زیادہ دفن کیا جاتا تھا۔ اصل اسلام سے کوسوں دور اور یہ فاصلہ مذید بڑھتا جارہا ہی۔ آج ہم سچ بات بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ حضورؐ کے دین کو مسخ کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کہ ہمت نہیںَ
آخر میں دُعا ہے کہ یااللہ اسلام کو مسخ کرنے والوں کو ہدایت دے اور ہمیں ہمت عطافرما تاکہ ہم ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرسکی۔ (آمین)
قتیلؔ اس شہر غونما میں نہ تو بول
یہاں پیارے تیری آواز کیا ہی

مظلوم قیوم کی یاد میں

انسان کا پیٹ اس کا سب سے بڑا دشمن ہی۔ انسان ہمیشہ چاہتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے محفوظ اور دور رہے اور وہ اس کیلئے جتن بھی کرتا ہی۔ لیکن پیٹ ایک ایسا دشمن ہے جس سے انسان دور نہیں بھاگ سکتا اور نہ ہی اس کے وار سے بچ سکتا ہی۔ اسے بھرنے کے لئے یوں تو صڑف یک روٹی کی ضرورت ہوتی ہی۔ لیکن انسان اس کے بہکاوے میں آکے کیسے کیسے کام کرجاتا ہی۔ اپنے جیسے انسانوں کی جان تک لے لیتا ہے جب بے حسی انتہا کو پہنچ جاتے تو انسانیت کی سکیاں سنائی نہیں دیتی، انسان اپنی ذات میں گم ہوجاتا ہے اور کم ہوکر رہ جاتا ہی۔ وہ دنیا کی خوب صورتی اور رنگینی کا مطلب نہیں سمجھتا۔ وہ کسی کو ہنستا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ پھولوں کا خوشبو، پرندوں کی چہچاہٹ ہٹ اور بچوں کی معصومیت تک اس کو متاثر نہیں کرتی۔ ایسے لوگوں انسان کہنا انسانیت کی بے حرمتی ہی۔ ان کے اندر حیوانیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
انسانی تاریخ گواہ بے کہ زر، ذن اور زمین کی وجہ سے فتنے برپا ہوئے اور اکثر و بیشتر قتل و غارت اسی بات پر ہوئی۔ قتل ہابیل کے بعد سے یہ سلسلہ رُکا نہیں ہی۔ لوگ تھوڑے سے پیسوں کے لئے ایک دوسرے کی جان لے لیتے ہیں۔ ایسا ہی درد ناک واقعہ گلگت میں پیش آیا۔ گلگت جو کسی زمانے میں مہمان نوازی، سیاحت اور پرامن لوگوں کی وجہ سے مشہور تھا لیکن بدقسمتی سے آج وہی گلگت قرقہ واریت اور قتل و غارت کی وجہ سے جانا جاتا ہی۔
یہ وہی دھرتی ہے جس نے لالک جان اور نذیر صابر جیسے سپوتوں کو پیدا کیا۔ لیکن وہاں آج اسکول کے طالب علم کے ہاتھ میں بستے کے ساتھ پستول بھی ہوتا ہی۔ فرقہ واریت کا بیچ جو کبھی ضاالحق نے بویا تھا اب ایک تناور درخت بنا چکا ہی۔ لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کا قتل کر کے ’’جنت‘‘ جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ قتل و غارت عام ہے کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں غیرت کے نام پر اور کہیں کچھ پیسوں کے لئے ایک دوسرے کی جان لینے سے نہیں کتراتی۔
ایک ایسا ہی الم ناک واقعہ 22 اپریل 2010 کو پیش آیا قیول جس کا تعلق ضلع غذر، یاسین تھوئی ہی، تلاش رزق حلال کے سلسلے میں گلگت میں تھا دن بھر کی محنت و مزدوری کے بعد شام سات بجے وہ کھانا کھارہے تھے کہ کچھ درندہ نما انسان اسلحہ سمیت اس کے کمرے میں داخل ہوگئے اور پیسوں کا مطالبہ کیا۔ تکرار بڑھ گئی اور ظالموں نے فائر کرکے قبوم جو اپنے گھر کا واحد کفیل تھا شہد کردیا۔
لفظ ’’شہید‘‘ میں نے اس لئے لکھ دیا کہ، ایک معصوم مفت انسان جو اپنے والدین، اپنی اولاد اور اپنے گھر سے کوسوں دور محنت مزدوری کیلئے رزق حلال کما رہا تھا سفاک و عیاش ڈاکوں نے کچھ پیسوں کے لئے اس کی جان لے لی۔ اگر شہید سے بڑھ کر بھی کوئی مرتبت ہوتی تو میں قیوم کو اس کا حقدار سمجھتا ہوں۔

تعلیم کے ساتھ کھلواڑ

زہرہ زاروقطار رو رہی تھی۔ یہ کسی دودھ پیتے بچے کی طرح اپنے سکیوں پر قابو نہیں کرپارہی تھی۔ آنسوں کا سیلاب اس کی آنکھوں سے جاری تھا۔ لڑکھڑاتی آواز میں وہ اپنا مسئلہ بتانے کی ناکام کوشش کررہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے دوپٹے کے پلو سے آنسو صاف کررہی تھی۔ لیکن اس کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اس نے کئی بار کوشش کی کہ گفتگو کو جاری رکھ سکے لیکن ہر دفعہ اُمڑتے آنسو اس کے راہ میں حائل ہوگئے تھے اور گفتگو کا سلسلہ رُک جاتا یوں مجبوراً اس کی والدہ نے اسکی کہانی کچھ یوں بیان کی۔
ذہرہ میری سب سے بڑی بیٹی ہے جب یہ میڑک میں تھی اس وقت اس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے اس سانحے کے بعد ذہرہ کو FSC تک محنت کرکے پڑھایا۔ پھر بطور Private امیدوار BA کرلیا اور ساتھ ہی Teaching کے متعلق ایک سرٹیفیکٹ کورس بھی کرلیا۔ میرے تین بٹیاں اور ایک بیٹا بھی اسکول میں زیر تعلیم ہیں میں بہت محنت مشقت سے ان کی فیسوں کا انتظام کرتی ہوں۔ جب زہرہ ایک مقامی اسکول میں پڑھانے لگی تو میں بے حد خوش تھی کہ میرے کاندھوں کا بوجھ اب ہلکا ہو جائیگا۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ یہ بوجھ مذید بھاری ہوکر میرے ناتواں کندھوں پر پڑجائیگا؟؟
شاید یہ مفلسی اور غم مجھ سے بے سہارا غریبوں کے لئے بناتے گئے ہیں میری بیٹی تین سالوں سے اسکوں میں پڑھارہی ہی۔ وہ صبح سویرے جاتی ہے اور پورے دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتی ہے اس کے جانے کے بعد گھر کے تمام کام کاج مجھے خود کرنے پڑتے ہیں لیکن اس کا صلہ ہمیں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔
نہ ان کی ملازمت مستقل ہے نہ ہی تنخواہ مل رہی ہے آخر کب تک میں یوں ہی کام کرتی رہونگی۔ کیا میری تمام اولاد اور میرے جیسے سب لوگوں کے ساتھ یہی سلوک ہوگا؟؟۔۔۔۔۔۔۔
یہ دکھ بھری کہانی سناکر زہرہ کی ماں بھی اپنے آنسووں کو ضبط نہ کرسکی۔ قارئین ’’پائوں ننگے ہیں بے نظیروں‘‘ کے مصداق گلگت بلتستان میں بہت ساری ایسی خواتین و حضرات ہیں جو ’’سیپ اسکولوں‘‘ سے وابستہ ہیں اور کئی مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
تعلیم اور ہمارے ملک میں اب ایک منافع بخش تجارت بن چکا ہی۔ ہر گلی کوچے میں ادھا درجن پرائیوٹ اسکول پائے جاتے ہیں۔ جن میں کہیں میڑک پاس Princpal کے عہدے پر فاتر ہے تو کہیں ٹھکیدار ہیڈ ماسٹر بنا بیٹھا ہے اور یوں بھاری فیس وصول کی جاتی ہیں تعلیم کا طبقات میں تقسیم ہونے کی وجہ سے اب صرف غریب لوگ ہی گورنمنٹ اسکولز کا رخ کرتے ہیں۔
Social action program (SAP) اسکول بھی اسی Categry میں آتے ہیں جہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کا تعلق معاشرے کے غریب ترین طبقہ سے ہوتا ہے پرائیوٹ اسکونر کی دوگنی فیس برداشت نہیں کرسکتی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غریب ہونا جرم ہی؟؟
کیا غریب والدین کی اولاد تعلیم حاصل نہیں کرسکتی؟؟ حکومت ان لوگوں کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کیوں اور کب تک روارکھے گی؟ یہ چند ایسے سوال ہیں جو کئی لوگوں کے ذہنوں پر دستک دیتے ہیں اور جواب کے منتظر ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں تقریباً 45 ہزار بچے سیپ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان اسکولوں کے اساتذہ پچھلے چھ مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں جو پوری محنت ور لگن سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں لیکن تنخواہوں کی عدم آدائیگی کی وجہ سے یہ لوگ اپنے لئے کچھ اور ذریعہ معاش کے بھاگ دوڑ میں لگ گئے ہیں۔ ظاہر سی بات گھروں میں فاقوں کی نوبت آجائے تو کب تک یہ بلا معاوضہ کام کرتے رہے گی۔ میری حکام بالا سے یہ اپیل ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کرے اور طلبہ و اساتذہ کو اندھیروں کی طرف نہ دھکیل دیں جو ملک و قوم کا اثاثہ ہیں یوں ہمارا مستقبل اندھیروں میں ہمارا منتظر ہوگا۔

مرثیہ مقید ذہن


مرثیہ مقید ذہن
آخر کب تک میرا ذہن مقد رہے گا؟؟
کب تک مجھے مجھ سے نہیں ملنے دیا جائیگا؟؟
کب تک میں اپنے آپ سے دوری کا ستم برداشت کرتا رہونگا؟؟
کب تک میں اپنے آپ سے ملنے کے لئے ترستا رہونگا؟؟
اپنے آپ سے یہ فراغت آکر کب تک؟؟
اور کتنے غموں کو اپنے ’’مقید رہن‘‘ میں جمع کرتا رہونگا؟
یہ طنز کے کوڑے کب تک میر مقید ذہن کے پیٹھ پر برستے رہینگی؟؟
باتوں اور سوالوں کا یہ بوجھ کب تک اور کیونکر میرا مقید ذہن برداشت کریگا؟؟
اس ناتواں اور مقید پر اتنا بوجھ کیوں لدا جارہا ہی؟؟
اس سے ملتے جلتے سینکڑوں سوالات ہمیشہ میرے دل و دماغ کے دروازوں پر دستک دیتے رہتے ہیں اور جوابات کے منتظر دکھائی دیتے ہیں میں انہیں ہر لمحہ، ہرپل، ہرجگہ اپنا منتظر پاتا ہوں لیکن۔۔۔۔
لیکن افسوس ہمیشہ انہیں ’’سوالیہ نشان‘‘ سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔ اس میں میرا بھی کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ان کے جوابات جاننے کے لئے میں بھی برسوں سے بے قرار منتظر ہوں۔
اکثر سوچتا ہوں کہ مجھ سے ان قاتل سوالات کا کیوں سامنا کرنا پڑتا ہی؟ کیا میرا مستقبل ان ’’قاتل‘‘ جملوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے جن کا ہمیشہ سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ہاں تو مجھے ایسے مستقبل کی کوئی ضرورت نہیں جو ہر روز مرنے کے بعد ملتا ہو۔ یہ سوالات مجھ جیسے سینکڑوں میں کے دماغ میں پیدا ہوتے ہونگے اور ’’سوالیہ نشان‘‘ سمیت جوابات کے منتظر ہونگی۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ اس ’’کینسر‘‘ کا شکار ہیں۔ کوئی ’’بابا گیری‘‘ تو کوئی ’’چچا گیر‘‘ کا شکار ہی۔
اس کے لامحدود نقصانات ہیں جن کا علم ان لوگوں کو نہیں جو اپنی سوچیں دوسروں پر مسلط کرتے ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ایک آزاد پنچھی کو پنجرے میں بند کردیتے ہیں۔ وہ مقید پنجھی اپنی آزادی کے لئے اپنی چونچ پنجرے پر مار مار اپنے آپ کو اور زخم و غمگین کر دیتے ہیں۔ وہ بے چارہ مضبوط پنجرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن اپنا سر پنجرے سے ٹکرا دیتا ہی۔ اس صیاد جو پریشان و غمگین پنچھی کی حالت زار دیکھتا، اسے اپنے آپ کو زخمی کرتا دیکھ کر اسے غمگین و مضطرب پاکر شاید خوشی و سکون محسوس کرتا ہی
اس پنچھی سے کھلی ہری بھر فضا میں سانس لینے کا حق کیوں چھنا جارہا ہی؟ وہ بھی جاندار ہے جسم و جان رکھتا ہے اسے بھی اپنی زندگی جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک مضبوط و طاقتور عقاب یا شاہین کو۔ جس کی نگاہ صرف اپنی منزل کی طرف یوتی ہے کیونکہ اس کی نگاہوں اور توجہ کو کوئی اور مضطرب نہیں کرسکتا۔ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے منزل کی طرف اُڑان بھرتا ہی۔ اسے روکنے والا کوئی نہیں نہ کوئی پنجرہ نہ کوئی سلاخ! یہ سختیاں صرف مجھ پر اور مجھ جیسے معصوم و کمزور پنچھی پر کیوں؟؟
رشک اس سوچ پر جو لوگ بغیر کچھ جانے دوسروں پر مسلط کرتے ہیں کہ ان پروں میں اتنا بوجھ سہنے کا دم نہیں ہی۔ مگر وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس کے نتائج کتنے سنگین ہوسکتے ہے ں۔ دنیاوی ناکامی پر طنز کی بارش کیوں!!
ان بوند نما کوڈوں کو جواب دینے کی ہمت مجھ میں کیوں نہیں۔ اپنی اس کمزوری کا ذمہ دار میں کس کو ٹھہرائوں؟
ان سب سوالوں کے جوابات کون دیگا میں انتظار میں ہوں اس مسیحا کا جو مجھے ان قاتل سوالوں سے جان چھڑانے میں میری مدد کرے اور مجھ اپنے آپ سے ملاقات کا شرف بخشے گا۔
مین منتظر رہونگا اس عسیٰ کا جو میرے مردہ جسم میں نئی جان ڈاں دیں اس نوح ؑ کا جو مجھے ان قاتل سوالوں کی طوفان سے بچاکر اپنی کشتی میں بٹھاسکی۔ کیونکہ یہی سوالات مجھ اپنے آپ سے دور لے جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں مجھے خوف ہے کہ یہ مجھے اس دنیا سے دوری کا سبب نہ بن جائی۔
بلبل کو باغبان سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھا تھا فصلِ بہار میں