Monday, December 3, 2012

تعلیم بھی فتنہ۔۔۔۔۔

دیوار پر بنی تصویر میں فضل الرحمن صدر بُش کی دوش پر سوار ہے، دوسری تصویر میں ایم۔کیو۔ایم کے قائد الطاف حسین مشرف کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔ بائیں طرف صدر زرداری کے نام کے ساتھ غلیظ گالیاں لکھی گئی ہیں اور ساتھ ہی فریال تالپور کا نام بھی درج ہے۔دائیں جانب سندھی قوم کو بُرا بھلا کہا گیا ہے اس کے نیچے جواباـپنجابیوں کو ظالم اور غدّار لکھا گیا ہے۔ اس کے بیک گراونڈ پر لڑکی کی برہنہ تصویر بنادی گئی ہے۔اور اس کے سینے پر دو تین فون نمبر درج ہیں اور کا ل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ رحمن ملک کے نام کے آگے غلیظ گالیاں دو لائنوں پر مشتمل ہیں لیکن الطاف بھائی یہاں رحمن ملک کو شکست دیتے نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ناظم منّور حسن کو بھی ’’اعلیٰ القابات‘ـ‘ سے نوازا گیا ہے۔ نواز شریف کے سابق بغیر بالوں والے سر پر کافی ’’تعریفی کلمات‘‘ نقش کر دئے گئے ہیں۔ یہ تمام تحاریر و تصاویر ہمارے ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوانوں نے جامعہ کراچی کی مین لائبریری کے ٹائلٹ کی دیواروں پر بنادی ہیں۔ افسوس کہ قلم کی تقدّس کو اس غلیظ جگہ پر پامال کیا جاتا ہے۔انہیں طالب علم کہنا طالب علمی کی بے حرمتی ہے اور ان کی تعلیم کلنک کے سوا کچھ نہیں۔یہ لوگ شعر کے ایک نا مکمل مصرے کی طرح ہیں کیونکہ اخلاقیات اور عمل کے بغیر انسان کو نامکمل تصّور کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں ان افراد سے ان پڑھ لاکھ درجہ اچھے ہیں کیونکہ وہ اس طرح بے ہودہ حرکتیں نہیں کرتے۔ یہ نامعقول باتیں اور بے ہودہ تصاویر صرف کراچی یونیورسٹی میں نہیں بلکہ پورے ملک کے کالجز اور جامعات کے باتھ روم میں نظر آتی ہیں حد تو یہ ہے کہ مساجد کے ٹوئلٹ کی دیواریں بھی محفوظ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ اور نوجوان طبقہ قوم کا سرمایہ اور ملک کا معمار ہوتا ہے لیکن افسوس صد افسوس ادھر یہ افراد بعداز استعمال فلش کرنا اور پانی ڈالنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔۔۔۔۔یہاں یہ طبقہ اپنے دل و دماغ میں نفرتیں اور غلاظت کئے پھرتا ہے۔ ڈگری اور اچھے نمبرز تو حاصل کرتے ہیں لیکن اخلاقیات اور انسانیت سے کوسوں دُور چلے جاتے ہیں۔ اِ نہیں سمجھانے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ یہاں اساتذہ کورس کی کتابیں رٹّوانے اور والدین پیسہ کمانے میں مصروف ہیں۔

Thursday, November 29, 2012

.... کیسا اسلام۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟

بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
اکبر الہ آبادی

محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی ہر سال میرے پڑوس میں ایک دلچسپ لیکن افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اور ہر سال اس کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ دسویں محرم تک یہ انوکھا کھیل جاری رہتا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ان دنوں میں پورے ملک کی فضائیں نوحوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے، ویسے ہی میرے پڑوس میں بھی باآواز بلند نوحے چلائے جاتے ہیں۔ میرے دونوں پڑوسی الگ الگ مکتبۂ فکر کے ماننے والے ہیں۔اور دونوں ان دِنوں میں ’’مذہب اور عبادت‘‘ کے نام پر اخلاقیات کو یکسر بھُلا دیتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ اخلاقیات کے ساتھ ساتھ مذہب کا بھی جنازہ نکال دیتے ہیں۔
ایک گھر میں اتنی تیز آواز میں نوحے چلائے جاتے ہیں کہ مجبوراً مجھے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے پڑتے ہیں۔ایسے میں پڑھنا اور مطالعہ کرنا تو کُجا چین سے بیٹھنا محال ہوتا ہے۔ کیونکہ دوسرے گھر والے نوحوں کا مقابلہ قرآن کی تلاوت سے کرتے ہیں۔ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کا کسی نہ کسی طرح قرآن کی تلاوت کی آواز نوحوں سے اونچی ہو۔ایک بیوقوفانہ عمل۔................۔ بہت ہی احمقانہ اور انوکھی بات یہ ہوتی ہے کہ جونہی نوحے چلائے جاتے ہیں اُسی لمحے دوسرے گھر سے سورہ الرحمن فُل آواز میں سنائی دیتی ہے۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ باقی ایام میں دونوں گھرانوں میں قدرے دھیمی آواز میں ہندوستانی فلموں کے گیت سُنے جاتے ہیں لیکن اس طرح کا مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اب فیصلہ آپ قارئین کریں کہ ہم مسلمان کس سمت جارہے ہیں؟؟ یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کتنے متحد ہیں؟ اورکس حد تک ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں؟؟ ہم عید ساتھ مناتے ہیں نہ دوسرے تہواروں میں ایک دوسرے کے عقیدوں کا احترام کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے عبادت خانوں سے لیکر برتن اور رنگوں کو بھی مذہبی و مسلکی بنیاد پر تقسیم کیا ہوا ہے۔ تمام مسلمان یکجا ہوکر صرف منٰی میں شیطان کو کنکریاں مارسکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کے ہر کونے میں شکست خوردہ ہیں۔ ذرا سوچئے اور اس خول کو اُتار پھینک دیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔

Thursday, September 6, 2012

بارش.....

مجھے بارش پسندہے
صرف دیکھنے سے دلچسپی
انھیں بھیگنے سے محبت
آج ویسا ہی موسم ہے
میری کھڑکی کھلی ہے
مگر دریچے دل کے مقفل ہیں
وہ بھیگتے جارہے ہیں
ٹھٹھرتے لب،بھیگتا آنچل
وہ گیلے بالوں کا رخسار چھوُن
ان کے گالوں سے چپکنا
مجھ کو جلا کر راکھ کرتے ہیں
ہوائیں سرد ہیں لیکن
مجھے صحرا کی لو معلوم ہوتی ہیں
نہ جانے کب میرے تشنہ وجود پر
کوئی بادل اتر آئے
اور اس ساون کے موسم میں
میں اس کے ساتھ بھیگ جاؤں

Wednesday, September 5, 2012

سیاست۔۔۔؟؟؟؟؟؟

عرضِ شمال کی حسین وادیوں میں بدامنی کے پے درپے واقعات سے جہاں خوف و ہراس پایا جاتا ہے وہی گلگت بلتستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی لگ رہا ہے۔سانحہء بابوسر کے بعد گلگت میں فائرنگ اور دھماکوں کی خبریں تواتر آرہی ہیں ان واقعات میں کئی بے گناہ معصوم شہری ذندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن اب تک ان واقعات میں ملوث کوئی کردار گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔مہدی شاہ حکومت صرف دعویے اور اعلانات کے علاوہ کوئی عملی کام کرتی نظر نہیں آتی۔ ان حالات کو دیکھ کر جونؔ ایلیا کایہ شعر دل و دماغ کے دروازوں پر دستک دیتا ہے
کون اس گھر کی دیکھ بال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کیا ہی اچھا ہوتا کہ گلگت بلتستان کے سیاستدا ن اور مذہبی علماء علاقے میں لگی فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینے کے بجائے بُجھانے کی کوشش کرتے،لیکن بدقسمتی سے ان میں بیشتر لوگ لاشوں پر بھی سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔ایک ایسا ہی واقعہ گزشتہ دنوں یاسین میں پیش آیا۔ رقص چوک گلگت میں ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار راجہ جمال الدین، جنہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا، کی لاش جب آبا ئی گاؤں یاسین پہنچ گئی تو وہاں کے نامور سیاستدان اور این اے کونسل کے امیدوار راجہ جہانزیب خطے میں لگی آگ کو ہوا دیتے نظر آئے۔ 1500کے قریب لوگ جو کہ تدفین اور فاتحہ خوانی کے لئے آئے تھے،جلوس کی شکل میں دوسرے فرقے کے خلاف نفرت انگیز نعرہ بازی کرتے رہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میںیہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا گیا ۔ سب بڑا احمقانہ عمل یہ تھا کہ لاش گھر لے جانے کے بجائے تقریبا پندرہ کلومیٹر کا راستہ جلوس کی شکل میں طے کر کے طاوس چوک پہنچ گئے، وہاں سے واپس قبرستان۔ سوال یہ ہے کہ لاش کو بارا ت کی شکل میں گھمانے کا مقصد کیا تھا؟؟ دوسرے فرقے کے خلاف نعرہ بازی کی کیا ضرورت تھی؟؟ تدفین کے بعد جہانزیب نے نہایت غیر ضروری تقریر کی جو کہ دھمکیوں سے بھر پور تھی۔کسی سیا ستدان کو اس قسم کے الفاظ بالکل ذیب نہیں دیتے۔وہ بھی ایک ایسے موقعے پر جب پورا علاقہ مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہو۔ نماز جنازہ پڑھانے والے مولانا صاحب جن کا تعلق داماس سے بتایا جاتا ہے،نے حیرت انگیز انکشافات کئے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی RAWنے حالیہ فسادات کرانے کے لئے چار کروڑ روپے دیے ہیں۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ حکومت کو چاہیے کا مولوی صاحب سے پوچھ لے۔ اور ا ن ا فراد کو مولانا صاحب سے معلومات لیکرگرفتا ر کیا جائے ۔ جہانزیب جو تدفین میں شریک افراد کا شکریہ ادا کرنے آئے تھے، نے اپنی تقریر میں کہا کہ چلاس ،تانگیر ، بشام ،داریل ، سوات سے ان کے ’’فدائی‘‘ انتقام لینے کے لئے مسلسل رابطے کر رہے ہیں، انھیں میرے ایک اشارے کی ضرور ت ہے۔ انھوں نے مذید کہا کہ اگر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو اپنی طاقت کا استعمال کریں گے اور ایک کے بدلے دودو لاشیں گرائنگے۔یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ جہانزیب چلاس، داریل، تانگیر کی کونسی طاقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟؟ کیا یہ وہی ’’طاقت‘‘ تو نہیں،جس نے چند ماہ قبل چلاس میں معصوم شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگا تھا؟؟؟ کیا یہ وہی ’’طاقت‘‘ تو نہیں،جس نے چند روز قبل بابوسر کے مقام پر معصوم شہریوں کے خون ہولی کھیلی تھی؟؟؟؟ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ ان حضرات سے دریافت کرے کہ پانچ لاکھ کی افرادی قوت(جس کا ذکر تقریرمیں جہانزیب نے کیاتھا) سے کونسے دشمنوں کا صفایا کرینگے؟؟؟ اس ایک تقریر نے یاسین کے سیاسی حالات کو یکسر بدل دیا ہے۔یاسین کے سادہ لوح عوام پی پی پی کے سابق جنرل سکٹریری غلام محمد اورMLA ایوب شاہ سے بیحد مایوس ہوچکے ہیں اور ان کا جھکاؤ جہانزیب کی طرف بڑھ گیا تھا،اب اپنی سیاسی سوچ کوبدل رہے ہیں ان کی نظریں اب کسی نئے سیاستدان کو ڈھونڈ رہی ہیں جو صحیح معنوں میں انکی نمائندگی کرے۔ دُعا ہے کہ یاسین کے عوام کو ایسی نوجوان سیاسی قیادت نصیب ہو جو سیاسی بتوں کو توڑ دے اور مذہبی انتہا پسند سیاستدانوں کو زیر کر کے حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی کرے۔(آمین)

Wednesday, August 22, 2012

....کھلونے ......

ُُُ’’عید کی نماز کے بعد جونہی میں اپنے محّلے میں داخل ہوا تو دیکھتا ہو ں ’’لوگ‘‘ دو گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بر سرِپیکار ہیں ۔ دونوں گروپ’’ ہتھیا روں‘‘ سے پوری طرح لیس ہیں اور ایک دوسرے پر تواتر گولیاں برسارہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اندین فلموں کی ڈائلاگ دوہرا رہے ہیں۔لوگوں کی عمریں سات سال سے پندرہ سال کے درمیان تھیں ۔ہتھیاروں سے میرا مطلب پلاسٹک کے بندوق اور گولیوں سے مراد پلاسٹک کے چھرّ ے ہیں۔‘‘ بچوں کے کھیلنے کی نازک چیز کو کھلونا کہتے ہیں ۔جو teddy bear ،ہوائی جہاز،اور گڑیا کی شکل میں ہوتے ہیں ۔ بچے اِن سے کھیل کر اپنا جی بہلاتے ہیں ، کھلو نے صر ف کھیلنے کی حد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ بچوں کی ذہنیت پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ بچپن کورے کاغذ کی طرح صاف ہوتا ہے اور اس پرجو کچھ بھی تحریر کر لیا جائے وہ پتھر پر لکیر کے مصداق اس انسان کی زند گی پر نقش ہوجاتا ہے۔بچپن میں بچوں کا من پسند مشغلہ اور انکا سب سے اچھا دوست انکا کھلونا ہوتا ہے۔جو نہ صرف بچے کے من کو بہلاتے ہیں بلکہ اسکے آنے والی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک ہوائی جہاز کا ماڈل بچے کو اونچی اڈان کا سبق دیتا ہے ،تو نرم نازک گڑیا چھوٹی بچیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے رحم ، پیار اور محبت کا سبق دیتا ہے۔ لیکن آج بچوں نے ہا تھوں ایک ایسا کھلونا آیا ہے جس نے پوری دنیا کو تباہ کر دیا ہے۔ جوظلم ،بربریت ،قتل و غارت ، تشّدد، خونریزی کا سبق دیتا ہے ۔ مجھے بچوں کے ہاتھوں میں ’’پلاسٹک کے پسٹل ‘‘ دیکھ کرنہایت مایوسی ہوتی ہے۔میرا خیال ہے کہ آج پورے ملک میں سب سے ذیادہ فروخت ہونے والا کھلونا یہی ہے ۔میں خود سے سوال کرتا ہوںآخر یہ بچوں کو کیا سبق دیتا ہے؟؟؟؟؟؟ اِس سے بھی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ والدین خود بڑے شوق سے بچوں کو مختلف تہواروں میں بطور تحفہ دیتے ہیں۔پاکستان کے تمام علاقوں میں اس کے اثرات ہمارے سامنے ہیں۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ شبِ برات اور دیگر تقریبات میں چائنا بم پھوڑنے کا ایک انوکھا رسم چل پڑا ہے۔ہمیں ہتھیا ر، بندوق اور بارود کی بو سے اتنی محبت ہو گئی ہے کہ کسی بھی تقریب کو فائرنگ کے بغیر نا مکمل تصّو ر کرتے ہیں۔دہی علاقوں خاص کر گلگت بلتستان ،فاٹا ، بلوچستان میں شادی اور بچے کی ولادت پر فائرنگ کی جاتی ہے ۔ اور بڑے فخر سے یہ بات دوستوں میں دہرائی جاتی ہے۔شہروں میں عید کے چاند نظر آنے پر (جو ہمارے مولویوں کو کبھی ایک ساتھ نظر نہیں آتا) شبِ برات اور دیگر مواقعوں پر دل کھول کر فائرنگ کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ شہروں میں روزانہ درجنون لاشوں کا گرنا معمول بن گیا ہے ۔ کیا ہم اس خطرناک کھلو نے کے نقصانات سے نا واقف ہیں؟؟؟کہنے کو بھی بے ضرر سی چیز نہیں ہے۔کیو نکہ بچے کھیلتے میں چھّرے لگنے سے اپنی آنکھوں سے محروم ہو چکے ہیں اور کئی ایسی خبریں عمو ماً اخباروں کی زینب بنتے ہیں۔اِس خطر ناک کھلو نے کا شکار گلی محّلو ں کی لائٹیں ٹوٹتی ہیں لیکن اسکا سب سے بڑا نقصان ان بچوں کا مستقبل ہوتا ہے ۔ان کی ذہنوں میں یہ’’کھلونا‘‘ اپنی جگہ پّکی کر لیتا ہے۔جہاں پہلے محّلے کے بلب اسکا شکاربنتے ہیں اسی جگہ اب انسانوں کی کھوپڑی نے لے لی ہے ۔ جہاں پہلے گھر کے برتن اور کانچ کی چیزیں ٹوٹ جاتی تھی وہی اب موت پر گھر اجڑ جاتے ہیں ۔پہلے بچے ایک دوسرے کو چھرّے مارتے تھے وہی آج بے دردی سے گولیاں برساتے ہیں ۔ یہی کھلونے اسامہ اور بیت اللہ محسود جیسے دہشتگردوں کو جنم دیتے ہیں۔اور یہی کھلو نے ہمیں ڈاکٹر عبد السّلام، ڈاکٹر عطا الرحمن ، ڈاکٹر پرویز ہود بائی ، قلم وکتاب ، امن و آمان اور سکوں سے دور کوسوں دور لے جاتے ہیں میں والد ین سے صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا! آپ اپنے بچوں کو علم ،شعوراور انسانیت کی راہ پر لائیں اور انکے ہاتھوں میں یہ نام نہاد کھلو نہ نہ دیں۔۔۔۔۔ورنہ سب کا خدا حافظ۔

Wednesday, April 4, 2012

۔۔۔۔حیف صد حیف۔۔۔۔

﴿"مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک هے
کم ظرف کے ہاتهوں میں گر جام دیا جاۓ"
کچه روذ قبل ائ- بی- اے کے ہاسٹل جانے کا اتفاق هوا، جاتے وقت بہت ساری اچهی امیدیں لۓ گیا تها لیکن جب داخلی درواذے سے باہر نکل رہا تها تب ''مایوسی'' اور "اقسوس" جیسے الفاظ بهی ساته تهے۔ انتہائ خوشی اس بات پر ہوئ که عرض شمال ﴿گلگت،چترال﴾ سے تعلق رکهنے والے درجنوں طلبا یہاں ذیرتعلیم ہیں، جو شمال کے دوردراذ اور وسائل سے محروم علاقوں سے آکر یہاں کے طالبعلموں کا مقابله کرتے ہیں۔ بہت فخر اور خوشی کی بات ہے۔ ایک مشهور کہاوت ہے "ایک مچهلی سارے تالاب کو گنده کرتی ہے" اسی کہاوت کے مصداق چند ایسے طالب علموں سے بهی واسطه پڑا، جنہیں طالب علم کہناطالب علمی کی بےحرمتی سمجهتا ہوں۔ ان سے مل کر کہیں سے بهی نہیں لگتا ہے که یه اسی شمال کے باسی ہیں جو اخلاقیات اور مہمان نواذی کا پیکر ہیں اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکه پوری دنیا میںان کے اخلاق کی طوطی بولتی ہے۔ نہایت افسوس کی بات یه ہے که ان کی عام بات چیت میں 90 فیصد غلیظ گالیاں شامل ہیں، حتی که کهانا کهانے کے دوران ایسی واہیات باتیں اور انتہائ غلیظ گالیاں دی جارہی تهی که کوئ آن پڑهہ ریڑی والا بهی سن کے شرما جاۓ۔ چترال اور گلگت کے کچه طالب علموں کی انداذ گفتگو دیکه کر یه بات کہنے میں دیر نہیں لگتی که "وه اپنے تمام تر اخلاقیات کراچی کے سمندر میں غرق کر چکے ہیں یا پهر نصاب کی موٹی کتابوں کے نذر کر چکے ہیں "۔ تاریخ گواه ہے که گلگت بلتستان اورچترال کے لوگ اخلاقیات، اداب،شائسته گفتگو اور مہمان نواذی کے ذیور سے اراسته ہوتے ہیں۔ لیکن ۔آئ-بی۔ اے جیسے عظیم درسگاه کے قابل،ذہین اور اعلی تعلیم یافته نوجوان اس ذیور کو اتار پهینک چکے ہیں۔۔حیف صد حیف:﴿ بقول شاعر
"تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا
"میرے مزاج کا اس میں کوئ قصور نہیں

Saturday, February 4, 2012

......جنّتِ ارضی.......

پاکستان کتنا حسین ملک ہے اِس کا اندازہ ہم نے ’’پاکستان ٹور‘‘ کے بعد لگالیا۔ہم کتنے بد نصیب ہیں کہ اتنے حسین ملک میں رہتے ہوئے بھی اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہاں کے لوگ سیرو سیاحت سے دُور بھاگتے ہیں اور ملک کے حسیں مناظِر سے لاتعلق شہروں میں رہتے اپنی مختصر ذندگی بِتا دیتے ہیں۔ یہ لوگ کھا نے پینے ،شادی بیاہ کی فضول رسوما ت ، اور سماجی حثیت کو بلند کرنے کے لئے بے دردی سے پیسے لُٹاتے ہیںمگر اپنے ملک کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لئے ان کے پاس وقت ہے نہ پیسہ۔ گِنے چُنے لوگ اللہ کا نام لیکر نکل پڑتے ہیں اور ان خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیںجو ہمیشہ ان کے منتظر رہتے ہیں۔ ' ’’پاکستان ٹور‘‘ کے بعد ہم نے بھی خود کو ان گِنے چُنے لوگوں میںشامل کر لیاجو قدرتی مناظر کے دلدادہ ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ہر سال کی طرح اس سال بھی ہمارے ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان ٹور کا پروگرام بنایا۔پروگرام کے مطابق سب کراچی کینٹ سٹیشن جمع ہو گئے اور بذریعہ ’’پاکستان ایکسپریس‘‘راولپنڈی پہنچ گئے ۔ راولپنڈی ا سٹیشن پر ہم ایک دوسرے کو پہچان نہیں پا رہے تھے کیونکہ گردو غبار نے ہماری شکلوں کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔اور چہرے بھی خاصے ہیبت ناک ہوگئے تھے کیونکہ میک اپ اُتر چکا تھا اور اُن کے ’’اپنی‘‘ چہرے واضع ہوگئے تھی۔
وہاں سے فوراً اسلام آباد کا رُخ کیا اور یوتھ ہاسٹل اسلام آباد میں قیام کیا ۔۔ اگلی صبع بزریعہ بس فیصل مسجد کی طرف نکل پڑی۔اسلام آباد کے خوبصورت منا ظر فیصل مسجد تک ساتھ ساتھ چلتے رہی۔ سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میںیہ سفید عما رت خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہی۔اب ہماری بس کا رخ ’’پیر سوہاوہ‘‘ کی طرف تھا۔بس میں بلکل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہماری بس درختوں میں پوشیدہ سڑک پربھاگتی ہوئی ’’پیرسوہاوہ‘‘ پہنچ گئی۔سب طلباء پیر سوہاوہ کی کوبصورتی مین ایسے کھوئے ہوئے تھے کہ اپنے آپ کو بھی بھول گئے تھی۔ہماری آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی۔وہاں سیاحوںکا کافی رش تھا اور لوگ ان خوبصورت مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھی۔ پیر سوہاوہ سے واپسی پر ہم ’’دامن کوہ ‘‘پہنچ گئی۔ راستے کے دائیں بائیں درخت تیز ہوائوں کے ساتھ جھک جھک کر ہمارا استقبال کر رہے تھی۔ دامن کوہ دلفریب نظاروں میں گھرا ہوا تھا۔ اونچے نیچے ٹیلوں پر لگے درخت اس حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ پیرسوہاوہ اور دامن کوہ کے ایک سے ایک خوبصورت مناظر دیکھ کر ہم بالکل تازہ دم ہوگئی
۔اگلی روز ہماری بس کھوڑہ کی طرف دوڑ رہی تھی۔’’کھیوڑہ سالٹ ماینز‘‘ دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہی۔ شدید گرمی تھی اور گرمی سے بچنے کے لئے ٹھنڈے مشروبات اور برف کے لئے بس کو راستے میں کئی جگہ رکنا پڑا۔کھوڑہ سالٹ مانز کے لئے باہر ٹھنڈی ہوا ہمیں خوش آمدید کہا۔کان کے اندر درجہ حرارت 18 ڈگری سینٹی گریٹ جبکہ باہر درجہ حرارت0ڈگری سینٹی گریٹ تھا۔ہمارے چاروں اطراف میں نمک ہی نمک تھا۔کان کے اندر نمک کی ایک خوبصورت مسجد اور نمک کا مینار پاکستان بنا ہوا ہی۔
شکر پڑیاں کا شمار اسلام آباد کے مشہور سیاحتی جگہوں میں ہوتا ہی۔ ’’پاکستان مونومنٹ‘‘ بھی یہاں سے کچھ زیادہ دُور نہیںہے جہاں قائداعظم محمد علی جناح،مادرِملت فاطمہ جناح اور مصّورِ پاکستان علامہ اقبال کی تصاویر اتنی خو بصورتی اور مہارت سے بنائی گئی ہیںکہ دیکھنے والا محسور ہوجاتا ہی۔ جسے دیکھتے ہی ان عظیم رہنماوںکے لئے دلی عزت و وقار اور اس آڑٹسٹ کے لئے داد کے کلمات خود بخود منہ سے نکل جاتے ہیں جس نے یہ شاہکار تخلیق کیا ہی۔سب لوگ ان دلکش مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھی۔تھوڑی دیر بعد ہم ’’لوک وِرثہ ‘‘ کی طرف نکل پڑے ، جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں کے ثقافت کو بہت خوبصورتی سے یکجا کیا ہوا ہی۔ان مجسموںکو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ ابھی اُٹھ کر بولنا شروع کر دینگی، اور بنانے والے آرٹسٹ کی شان میں تعریفی کلمات خود بخود ادا ہوجاتے ہیں۔ لوک وِرثہ سے ٹیکسیلا میوذیم سے ہوتے ہوئے ہم ’’خان پو رڈیم ‘ ‘ پہنچ گئے ،جو اسلام آباد سے چند کلومیٹر دُور پہاڑوں کے درمیان واقع ہی۔ڈیم کے اطراف میںپتھریلے ٹیلے ہیں۔ اطراف پہاڈوں کا عکس ڈیم کے شفاف پانی میں نظر آتا ہے ۔ یہ اسلام آباد میں ہمارا آخری دن تھا ۔
ہمارا اگلا پڑاو مَری تھا، سرسبز پہاڈوان کو چیرتا ہوا مَری کا روڈ اِنتہائی دلکش منظر پیش کرتا ہی۔ ہماری بس ’’پتریاٹہ ‘‘کی طرف دوڑ رہی تھی اور ہم گیتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھی۔ مَری کے خوبصورت مناظر دیکھنے کے لئے ہمارے سر بے اختیار بس کی کھڑکیوں سے باہر نکلے ہوئے تھی۔ یہاں سیاحوں کا بڑا رش لگا رہتا ہے ، چیر لفٹ پر بیٹھے کے لئے لوگوںکو گھنٹوں لائن میں کھڑے انتظار کرنا پڑتا ہی۔ لوگوں کو لمبے قطار میں کھڑے دیکھ کر مجھے کراچی کے بینک کے باہر بِل جمع کراتے لوگوں کی یاد آگئی۔ یہا ں چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوںمیںخوبانی اور آلو بخارے لئے بس کے گیٹ پر سیاحوں کو ویلکم کہتے ہیں۔
اب ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی تھی ہم نے کپڑوں کے بیگ میں سے پہلی بار پورے بازو کے شرٹ اور سویٹر نکال کر ذیب تن کئے تھے ۔ پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے ہم ہوتھ ہوسٹل بھوربن پہنچ گئی۔ بھوربن کی مہکتی فضا نے سب کو تازہ دم کردیا، یہ سرسبز وادی بادلوں کی تخت پر براجمان ہی۔ یہاں ہوتھ ہوسٹل ایک اونچی جگہ پر بنا ہوا ہے یہاں کھڑے ہوکر جب نیچے نگاہ ڈالتے ہیں تو دم بخود رہ جاتے ہیں۔ یہا ں کے سر سبز پہاڑ سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ بھوربن سے نکلتے وقت ہر سیاہ یہ سوچتا ہے کہ کاش وہ اس حسین وادی کا حصّہ بن جائے اور واپس شہر نہ جانا پڑی۔ ہماری اگلی منزل مری تھا ،صبع ہم سب بس میں سوار ہو کر مال روڑ کی طرف نکل پڑے یہا ں خواتین کے انتظار میں ہمارا آدھا گھنٹہ ضائع ہو گیا، جو بڑے زوق و شوق سے خریداری میں مصروف تھیں۔خریداری کے بعد خواتین کے شہرے خوش و خرم اور ہاتھوں میںسامان سے بھرے تھیلے لٹکائے ان کے ساتھ ائے ہوئے مرد حضرات منہ لٹکائے ہوئے برامد ہوئی۔ یہاں سے نکل کر ہم خانص پور کی طرف رواں دواں ہوگئی۔ سرد ہوا کا رقص جاری تھا، یوتھ ہاسٹل خانص پور کے گیٹ پر تیز بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ شدید سردی لگ رہی تھی کمروں میں پہنچتے ہی سب نے بھاری سویٹرز اور کیپ پہن لئی۔ ہاتھ دھونے کے لئے نل کھولنے پر یخ ٹھنڈے نے چونکا دیا سب نے کمبلوں کے اندر گھُسنے کو ترجیع دی۔
wاگلی صبع ہم وادی کاغاں کی طرف روانہ ہو گئے ۔ بالاکوٹ سے آگے حسین منا ظر کلینڈر کے ورق کی طرح کھلتے جاتے ہیں۔ بس کی کھڑکھیوں سے دوردور تک بر فیلی چوٹیاں ڈھوبتی اُ بھر تی نظر آتی ہیں، ہلکی ہلکی آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہو جا تی ہے جو ناراں میں اپنی انتہا تک پہنچ جاتی ہی۔ ناراں کی چوُٹیاں پوری سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کے آبشار اس کی حُسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک اور جھیل لولوسر اس خوبصورت واد ی میں واقع ہیں۔
جھیل سیف الملوک ناراں سے آٹھ کلومیٹر دُور ہی، یہاں کا راستہ انتہائی تنگ اور خطرناک ہی۔ اسی وجہ سے صرف جیپ ہی جا سکتی ہے جس میں آٹھ لوگوں کی بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہی۔ راستے میں جگہ جگہ گلیشیرز ہیں، بلند و بالا برف سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان یہ جھیل خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہی۔ یہاں سیا حوں کا رش لگا رہتا ہی، مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگ مختلف زاویوں سے جھیل کی تصاویر بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری یہ جھیل پُراسرار ماحول سے دمکتی ہے اور صاف پانی آئینے کی طرح جگمگا تا ہی۔ جھیل کے شفاف پانی میں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں جھلملاتی ہیں۔
یہ سراسر زیادتی ہوگی کہ ناراں کے بارے میں بات کی جائے اور دریائے کُنہار کا ذکر نہ آئی۔ نہایت سردی کے باوجود دریائے کُنہار کی خوبصورتی سیا حّوں کو اپنی طرف کھینچتی ہی۔ سیّاح ہوٹل کے کمروں اور خیموں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دریا کا دوسری طرف کافی آبادی ہے اور یہاں لکڑی کے ایک خطرناک پُل کو یہاں کے باسی دریا عبور کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کے حسین مناظر سیّاحوں کو کیمپنگ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ شام کو دریائے کُنہار کے کنارے پر سرد ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مجھے اس وادی سے محبت ہونے لگی تھی۔
جھیل لُولُوسر ناران سے اکیالیس ( ۴۱ ) کلو میٹر کی مسافت پر برف پُوش پہاڑوں کے درمیان واقع ہی۔ اگلے دن ہم جھیل لُولُوسر کا سفر شروع کر دِیا۔ جھلکڈ تک کا سفر بس میں طے کیا ، مجھ سمیت کچھ لڑکوں نے یہ سفر بس کی چھت پر طے کیا۔ وہاں سے آگے صرف جیپ ہی جا سکتی ہے کیونکہ راستہ کافی تنگ اور خطرناک ہی۔ لُولُوسر کے راستے میں ہزاروں کچے اور عارضی گھر دیکھائی دیتے ہیں۔ بھیڑ، بکریاں اور خچر چراگاہوں میں چر رہے ہوتے ہیں۔ جھیل لُولُوسر تک کا راستہ بڑے بڑے پتھروں سے بھرا پڑا رہتا ہے ۔ یہ جھیل گیا رہ ہزار کی بلندی پر واقع ہے ، چلتے چلتے ایک موڑ مڑتے ہی لُولُوسر کا جادوئی منظر سامنے آتا ہی۔ پتھروں میں گھری یہ جھیل پُراسرار ماحول سے دمکتی ہے اور صاف پانی آئینے کی طرح جگمگا تا ہی۔ جھیل کے شفاف پانی میں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں جھلملاتی ہیں۔ یہاں ہر طرف خا مو شی چھائی رہتی ہے کیونکہ آس پاس آبادی نہیں ہے اور دُور ہو نے کی وجہ سے بہت کم تعداد میں سیّاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔
اگلے روز وادی ناراں کو گُڈبائے کہہ کر شوگراں سے ہوتے ہوئے ’سِری‘اور ’پائے ‘ کے دلکش وادیوں میں پہنچ گئی۔کاغان روڑ پر واقع ’کیوائی‘ سے جیپوں میںسوار ہوکر شوگراں کی طرف چل پڑی، یہاں سے اُبھرتے ہوئے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہی، جن میں سے اکثر چُوٹیاں برف کا لُبادہ اوڈھی ہوئی ہیں۔ ’سِری ‘ اور ’پائے ‘ کے عجیب و غریب ناموں کے بارے میں یہاں کے مقامی لوگ ایک کہانی سُناتے ہیں ان کے مطابق صدیوں پہلے وہاں کے سرسبز وادیوں میں ایک خوفناک جانور گھومتا تھا ۔ ایک دن گا ئوں کے ایک آدمی کی پالتو بکری یہ جانور اُٹھا لے گیا ، جب اس بکری کی تلاش شروع کی تو ایک حسین جگہ پر بکری کی سِری ملی اسے ’’سِری‘‘ کا نام دیا گیا اور بلندی کے آخری حد پر پائے ملنے پر ’’پائے ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ یہاں کا راستہ نہایت دشوار گزار، تنگ اور اطراف میں گھنا جنگل پھیلا ہواہی۔ سری میں بادلوں کی وجہ سے اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز نہیں ہو سکی۔ ہمیں ٹیکسیلا پہنچنا تھا اس لئے جلدی جلدی جیپوں میں سوار ہوکر واپس کیوائی آگئے اور ٹیکسیلا کی طرف رواں دواں ہوگئی۔ رات یوتھ ہوسٹل ٹیکسیلا میں گزاردی اور صبع اسلام آباد پہنچ گئے ، شام میں ’’راول پارک‘‘ اور ’’راول ڈیم ‘‘ کو دیکھنے گئی۔ اگلی صبع راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کی طرف نکلے تو اسے باربار دیکھا کیونکہ شمال کے پہاڑوں، برف پُوش چوٹیوں، جھیلوں اور سر سبز و شاداب چراگاہوں نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا دیا تھا۔ بذریعہ بس پنڈی اسٹیشن پہنچ گئے اور وہاں سے ’’پاکستان ایکسپریس‘‘ کی دوش پر کراچی آگئی۔ یوں ہمارا سترہ (۱۷) روزہ دلکش سفر اپنے اختتام کو پہنچا، لیکن اب تک خوبصورت وادیوں کے دلفریب مناظر میری آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلتے ہیں۔ آ خر میں میں اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے ڈیپارٹمنٹ کی چئیر پرسن سرورجہاں عبّاسی محترم اساتذہ وسیم انصاری ، محمد امتیاز ،سّید عنایت اللہ اور آفس اسسٹنٹ محمد شبیر کا شکریہ ادا کرنا چاہونگا، جنہوں نے اس خوبصورت ٹُوور کا انعقاد کاکرالیااور ملک کے حسین وادیوںکو دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ مجھے امید ہے آیئندہ بھی اس طرح کے پروگرام منعقد کرتے رہینگی۔