Tuesday, October 18, 2011

تعلیم اور ڈگری کی بے حرمتی


تعلیم مقدس اور شعبہء ہی۔کسی بھی ملک کی معا شی و معاشرتی ترقی تعلیم کے زریعے ہی ممکن ہی۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں اس شعبے کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔نہ صرف نظرانداز کیابلکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ا س کواور اس سے شعبے سے وابسطہ لوگوں(اساتذہ و طلبائ)استعمال کیا گیاجو ہنُوز جاری ہی۔پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس شعبے کو فٹ بال بنا دیااور گول اسکورکرنے کے لئے اس شعبے کی پُشت پر اتنی لاتیں ماردی کہ یہ اُٹھ چلنے سے قاصر ہی۔
ہمارے ملک میں اس شعبے کی مثال اس ہیروئنچی کی سی ہے جو ہمیشہ نشے میں دھت لڑکھڑاتا پھرتا ہے کیونکہ حکمرانہر دفعہ اس کی رگوں میں نشے کے انجکشن لگادیتے ہیں کبھی نا اہل انتظامیہ کی صورت میں تو کبھی جعلی ڈگری ہولڈرز کی شکل میں۔باقی کسر تعلیمی بجٹ کو کم کر کے پورا کر دیا ہی۔جو ۸۰۰۲ ؁ء میں ۹۸.۲تھا کو گٹھا کر ۵۲.۱کر دیا ہی۔ؤا س شعبے کے مذاق کی ایک تاذہ مثال وزیر داخلہ رحمان ملک ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیکر کیا ہی۔یہ ڈرامہ منگل کے روز گورنر ہاوس میں رچایا گیااور یہ فرمایا گیا کہ ڈاکٹر حمان ملک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیے ہیں اور کراچی شہر میں امن کی بحالی کے لئے بہترین خدمات انجام دیے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے ہر سطح پر مختلف تنازعات کو حل کیااور دوستی کو فروغ دینے کی بڑی کوششیں کیں۔
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم نے فرمایا کہ رحمان ملک نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں۔ڈاکٹر حمان ملک کی گاون پہنے ، تصویر جس میں پیرزادہ قاسم سے ڈگری وصول کر رہے ہیں، میرے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گئی ہے کہ ڈاکٹریت کی ڈگری کا حصول بھی سیاستدانوں کے لئے کتنا اسان کام ہی؟؟ زرداری اور گورنر کو ئی اور ایوارڈبھی دے سکتے تھے لیکن اس شعبے کو کیوں چنا گیا؟؟ تعلیم کے ساتھ ہی مذاق آخر کیوں؟؟؟ ہر حکومت اسی طرح ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں تقسیم کرتی رہی تواس ڈگری کی کیا قدر رہیگی؟؟ اور اب ہر سیاستدان جھو ٹے دعوے اور بیانات دیکر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حصولی کے لئے بھر پور کوششیں کریگا۔
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم نے شاید اس لئے یہ قدم اٹھایاہو کہ موجودہ حکومت اور رحمان ملک انھئں پھر سے وائس چانسلر تقرر کریں کیونکہ ان کامدت پورا ہونے والا ہی۔کراچی یونیورسٹی کی اسا تذہ کی تنظیم (کے ۔یو۔ٹی۔ایس)کے صدر ڈاکٹر عابد حسین کی حالیہ انٹرویو سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس سلسلے میں ا ن سے مشاورت نہیں کی گئی اور کراچی یونیورسٹی کے ۰۰۵ ریگولر اساتذہ میں سے ۰۰۳ نے اس کے خلاف احتجا ج ریکارڑ کر وایا ہی۔میری یونیورسٹی انتظا میہ ، اساتذہ اور طلباء سے گزارش ہے کہ وہ اس اقدام کے خلاف اپنی آواز بلند کرے تاکہ ائیندہ اس مقدس شعبے کے ساتھ اس طرح مذاق نہ ہو۔
اگر خدمات کے اعتراف میں ڈگری دینی ہی تھی تو عبدالستار ایدھی، انصار برنی ، عمران خان او ر کئی ایسی شخصیات ہیں جو حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرتے ہیں ۔ پیرزادہ قاسم صاحب نے اس ڈگری کی توہین کی ہے جس انسان کو سورہ فاتحہ کی تلاوت نہیں آتی ہواسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کرا س ڈگری کی توہین کی ہی۔


علی گل جی(علی احمد جان

Tuesday, October 11, 2011

my poetry


عجب انداز مِرے چاہنے والوں کا ہی
ہر صبع رختِ سفر اپنا بدل دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تُو بھی اووروں کی طرح مجھ سے نِگاہیں نہ بدل
مجھے یہ پَل، یہ لمحے بہت پیارے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ربطہ ہے مجھ سے مِرے دوستوں کا اِس طرح
جیسے فلک پہ چاند سِتارے ہوں ساتھ میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزقلم: علی احمد جان اطہ

do sher


اِک عمر بِیت چلی تھی ساتھ ہنستے ہنستی
انہی لوگوں کا اَب انداز نِرالا دیکھا

جب پڑی اُن کی نظر ،میرے اشکوں پر
اُن کی آنکھوں میںعجب نُور اُجالا دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شبِ تنہائی سے میری محبت اِس قدر کیوں ہی؟
لِپٹ کر اس سے میری ہر رات بسر ہوتی ہے
آزقلم: علی احمد جان اطہر

माय poetry


مِری قسمت بھی کبھی ساتھ نہ دیتی اطہر
وہ بھی غیروں کی طرح وار کیا کرتی ہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصروف ہوں میں حلقئہ یاراں میں اس طرح
سوکھا ہوا اِک پیڑ ہو صحرا کے وسط میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوںہی اپنوں کی بے رُخی دیکھ کر
جل اُٹھا ہے وجود پھر میرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزقلم: علی احمد جان اطہر

شب کا ہمسفر


تما م شب خوشیاں
اس کے چہرے پر
رقص کرتی رہی
ناچتی ، گنگناتی رہی
کیونکہ
شب کے رخصت ہونے تک
سورج کے نکلنے تلک
آ ج پھر میں
مرحو میوں کی چادراوڈھی
اپنی خوشیوں کی لاش لیی
اس کا ساتھ نہ چھوڑونگا
اسے گلے لگائو نگا
اس کا ہمسفر بن جائونگا
علی گل جی (علی احمد جان اطہر

اے اہلِ چمن ذرا سوچیئی
ذرا سوچیئے اس شہر کے با رے میں
خوف کی دوڈتی لہر کے با رے میں
ہر طرف ظلم کا جو راج ہی
نا حق خون کے بہتے نہر کے با رے میں
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئی
لا شیں گر رہی ہیں جو چار سوُ
اس خونی پہر کے بارے میں
بِنتِ حوا عریاں ہے یاں
کیجئے کچھ اس جہل کے بارے میں
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئی
چونک اٹھتے لوگ اپنے سائے سی
سو چتے ہیں جب اس دہل کے بارے میں
ماتم کناُں ہیں فرشتے بھی
اس وحشت و قہر کے بارے میں
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئی
علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

ایساراہی ہوں!!


ایساراہی ہوں!!
ہے مجھے بھی شوقِ منزل مگر
ہر منزل مجھ سے دُور ہی
چلتا ہوں جب اس کی جانب
اندیھری راہ کی تا ریکی
مرا ہمسفر بن جاتی ہی
یوں ہم اکھٹے چلتے ہیں
آدھے راستے کے بعد
مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہی
وہ بھی مجھے گلے لگاتی ہی
میں اپنی منزل کو بھول کر
تاریکی سے محبت کرتا ہوں
پھر ہم دونوں کا بچھڑ نا
مشکل ہی نہیں
نا ممکن ہو جاتا ہی
لُوٹ جانا بھی مشکِل ہو تا ہی
سوچوں میں ڈوبا رہتا ہوں
رستہ ہی چُنتا رہتا ہوں
میں اِک ایساراہی ہوں
ہاں ایسا ہی راہی ہوں
زندگی کی شاہراہ پر
علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

مگر اب۔۔۔۔۔



کبھی ہم مسکراتے تھی
فضا میں چہچہا تے پرندوں کی صورت
گیت گا تے تھی
جو ہم سے دور ہیں اب، وہ
ہمارے ساتھ ہو تے تھی
زمانے بھر کی رنجیشیں
ہم ان سے دور ہوتے تھی
رواں آنکھوں سے جو اشک ہیں
خوشی کے آنسو ہوتے تھی
طویل بے چین یہ راتیں
سہانے خواب ہوتے تھی
مرے اندر کا بنجر پن
کبھی شاداب ہوتے تھی
کبھی ہم مسکراتے تھی
مگر اب ۔۔۔۔۔۔۔۔
علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

آخر کیوں


آخر کیوں ایسا ہوتا ہی۔۔؟؟
دھماکے چار سُو ہوتے ہیں
با رود کی بُو سے
یاں کی فضا مہکتی ہی
اور کہیں
خون کی ندیاں بہتی ہیں
لا شیں گِرائی جا تی ہیں
آخر کیوں ایسا ہوتا ہی۔۔؟؟
جل رہا ہے شہر شہر
قریہ قریہ دھواںدھواں
محفوظ ہیں نہ مسجد یں
نہ نمازی کو چین ہی
ہر سُو عجب سا خوف ہے
سجدہ کرتے وقت بھی ذہنوں میں
خوفِ خدا سے پہلے
دھما کے کا ڈر ہوتا ہے
آخر کیوں ایسا ہوتا ہی۔۔؟؟
رواں ہیں خون کی ندیاں یاں
کہیں مذہب کے نام پر
کہیں غیرت کے نام پر
نفرتوں کے یہ بیج
پھر ہلاکتوں کی فصل کٹتی ہی
آخر کیوں ایسا ہوتا ہی؟
آخر کیوں۔۔۔؟؟ آخر کیوں۔؟؟ علی گل جی (علی احمد جان اطہر)

Monday, October 10, 2011

me kafir hon ager Islam ye hy


مُلک ایک عجیب ، خوفناک صورت حال سے دوچار ہی۔مہنگائی، دھماکی، ٹارگٹ کلنگ اور امریکہ کی دھمکیوں نے عوام کوذہنی مریض بنا دیا ہی۔’’شک‘‘ نے یہاں کے عوام کی ذہنوں میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہی۔ہر انسان دوسرے کو شک کی نِگاح سے دیکھتا ہے کہ یہی خودکش بمبار ہی، یا کسی مولوی کانوازاگیا جنت کا سَند یافتہ مسلمان جو دوسرے مسلمانوں کو قتل کر کیا ’ثواب‘ کمانے میں مصروف ہیں۔ بقول شا عِر
جانے کب کون مجھے مار دے کا فر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان بنا پھرتا ہی
اِنتہاپسندی کی یہ آگ ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کی لگائی ہوئی ہے جو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں اور مدرسوں میں حوروں کا جلوہ دیکھنے کے لیے بے چین بمبار ہمارے حکمران اور انکل سام کی مشترکہ پیداوار ہیں۔کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کا ’’ٹیسٹ میچ‘‘ جو بظاہر دو سیاسی جماعتوں کے درمیان کھیلا جاتا ہی، جونہی رُک گیا تو کوئٹہ کی وادی بے قصور زائرین کے لہو سے لال ہو گئی۔ یوں خون کی یہ ہولی ہنوز جاری ہی۔گزشتہ کچھ سالوں سے فرقہ پرستی کا زہر پاکستانی قوم میںسرایت کر چکا ہی۔ایک مسلمان دوسرے کلمہ گو مسلمان کو قتل کر کے خود کو جنّت کا حق دار کہلوانے پربضد ہی۔مدرسوں میں ذہنی تربیت(برین واش) کچھ اس طرح دی جاتی ہے کہ دوسرے فرقے اور مسلک کے پیروکاروں کو قتل کرنے کی نت نئی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔مولوی حضرات اِن معصوم ذہنوں میں نفرت کا زہر بھر دیتے ہیں اور قرآن شریف کی اصل تعلیم کے بر عکس اُنھیں فرقہ واریت کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں واضح طور پر فرقہ واریت کی لعنت سے دور رہنے کا حکم دیا ہی۔حکم ِ خدا وندی ہے کہ:۔
ترجمہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘
اس واضح فرمانِ الٰہی کے باوجود کچھ لوگ اس لعنت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ دی۔گزشتہ ہفتے ایران جانے والے شیعہ زائرین پر گولیاں برسا کر شہیدکرنا بھی اسی سلسلے کی اک کڑی ہی۔کیا اسلام اس عمل دیتا ہی؟ایسے ہی لوگوںکی وجہ سے آج عالمِاسلام اور خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔آج پاکستان اور پوری اُمتِ مسلمہ ایسے نام نہاد مسلمانوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہی۔فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لہر نے پوری دنیا کو ہم سے دور کر دیا ہی۔
مذہبی فرقوں کے سربراہان ایک دوسرے پر لفظوں کے ایٹم بم گرانے میں مصروف ہیں۔ہر فرقے کے پاس دوسرے کے لیے کُفر کا فتویٰ موجود ہی۔کوئی ’’یارسولؐاللہ‘‘ کہنے والے کو کافر کہتا ہے تو کوئی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے والوں کو کفر کا فتویٰ دیتا ہی۔کچھ لوگ موچھیں منڈوانے والوں کو دائرئہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں تو دوسرے لمبی داڈھی رکھنے والوں کے خلاف زہر اُگلتے ہیں۔خود غرضی کی اِنتہا یہ ہے کہ قرآن پاک کی ایتوں اور احادیث کو بھی نہیں بخشا ہی،جنہیں اپنے مقصد اور مطلب کے لئے اِستعمال کرتے ہیں۔آ ج ہم اصل اسلام سے کوسوُںدُور نکل آئے ہیں۔آ ج اسلامی معشیت، اسلامی فِقہ ،اسلامی ثقافت سب بدل گئے ہیں۔ ہم حضورؐ کی دین سے اتنی دُور نکل آئے ہیں کہ ہمارے اعمال دَورِجہالت سے مماثلت رکھتے ہیں۔
ٍ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبباسلام میں کی جانے والی مِلاوٹ ہی،جِسے اپنے مقصد کے لئے کی گئی ہی۔ شائد یہی ’’خود ساختہ اسلام‘‘ ان کو قتل و غارت کی تعلیم دیتا ہے ورنہ اسلام نے ایک انسان کی قتل کو پوری انسانیت کی قتل کا مترادِف قرار دِیا ہی۔ مذہبی فرقوں کے سربراہان کو چاہئے کہ وہ صرف ما ضی کی عا لیشان تاریخ و واقِعات کو خطبوں میں دُہرانے کے بجائے اس پہ عمل کریں اور فرقہ واریت کے ذہر کو معاشرے سے نکال پھینکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تاکہ مستقبِل میں ایسے درد ناک واقعات رونما نہ ہو۔