Monday, December 2, 2013

بلاول کا "بھٹو" بننے کی ناکام کوشش

زیر نظر تصویر پی پی پی کے چیرمین بلاول زرداری کی ہے، جو بعد از مرگ بینظیر ، عوام کو بے وقوف اور اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے '' بلاول بھٹو زرداری'' بنا دئے گئے، کی ہے۔ جس میں وہ اپنے دورہ لاڈکانہ کے موقعے پر ایک ٹھیلے والے سے چاٹ خرید رہے ہیں اور ان کے بائیں ہاتھ میں ہزار کا نوٹ ہے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کیا یہ ٹھیلہ والا اتنا کماتا ہے؟؟ یہ بیچار پورے ہفتے میں ہزار روپے نہیں کماتا ہوگا۔ '' بلاول زرداری صاحب'' نے یقیناً بھٹو کے ''چکر'' میں یہ ناکام کوشش کی ہے۔ اب انھیں یہ کون سمجھائے کہ غریب ٹھیلے والے خواب میں ہی ہزارکا نوٹ دیکھتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ برگر کھانے والے اس "برگر" نے ٹھیلے سے خریدی ہوئی چاٹ نہیں کھائی ہوگی۔ کہیں پھینک دی گی۔ آخر کب تک ہم ایسے لوگوں کو اپنا "لیڈر" مانتے رہینگے جنہیں عوام کے مسائل کا الف، بے بھی نہیں معلوم۔۔۔۔۔

Wednesday, November 27, 2013

رفع حاجت بھی بڑا جنجال ہے۔۔

شہر کی دیواروں پر ایک جملہ اکثر پڑھنے کو ملتا ہے ’’یہاں پیشاپ کرنا منع ہے‘‘ لیکن اس نوٹیفیکیشن کو عوام ملک کے دیگر قوانین کی طرح روند ڈالتے ہیں اور اسی دیوار کے نیچے ’’ہلکا‘‘ ہوجاتے ہیں۔ کچھ مقامات پر لوگ تنگ آکر ایک اور دلچسپ جملہ لکھ دیتے ہیں کہ ’’دیکھو گدھا پیشاپ کر رہا ہے‘‘ لیکن ان کا یہ’’ وار‘‘ بھی ضائع جاتا ہے اور لوگ وہی’ ہلکا‘ ہوکر اپنی راہ لیتے ہیں۔ یہ انسان کی biological need ہے کہ نظامِ انہظام کے بعد فضلہ جسم سے خارج ہوجاتاہے۔ فرض کریں ایک شخص سندھ یا پنجاب سے طویل سفر کے بعد کراچی پہنچ جائے اور اسے ٹائلٹ جانے کی ضرورت پیش آئے تو کیا کریگا؟؟ مرد وں کے لئے اتنی مشکلات درپیش نہیں آتی۔ وہ کسی دیوار کی طرف منہ کرکے، کسی درخت کے نیچے یا کسی پارک کے کونے میں جاکر ’’ہلکا‘‘ ہوجائیگا۔یا پھر قریبی مسجد کا رُخ کریگا۔ لیکن بے چاری خواتین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لئے تو مسجد کے ٹائلٹ کے دروازے بھی بند ہیں۔ شہر میں پبلک ٹائلٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کراچی جو کہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے، میں صرف تین چار پبلک ٹائلٹ (برائے خواتین) ہیں، ان میں بِن قاسم پارک، کراچی چڑیا گھر شامل ہیں۔ مشرف کے دورِاقتدار میں کراچی کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے شہرکے مختلف بس اسٹاپس پر پبلک ٹائلٹ بنوائے تھے لیکن یہ احتجاجی ریلیوں کی نذر ہوگئے۔ مختلف احتجاجی مظاہروں میں کھڑکیاں اور دروازے اکھاڑ کر لے گئے۔ ہمارے ملک کے اسلام کے ٹھیکیدار اور مذہبی انتہاپسندوں نے تو پہلے ہی اس پر ’’فحاشیت‘‘ کا ٹھپّہ لگادیا تھا۔ UNICEFکے سروے کے مطابق پاکستان میں چار ملین یعنی چالیس لاکھ سے ذیادہ افراد ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ فرض کریں کسی خاتون کو دورانِ سفر، بس اسٹاپ یا شاپنگ کے بعد ٹائلٹ جانے کی ضرورت پیش آئے، تووہ بے چاری کہاں جائیگی؟؟ حکومت کو چاہئے کہ شہر کے مصروف شاہراہوں کے بس اسٹاپس پر پبلک ٹائلٹ تعمیر کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے عوام ڈرون حملے، مہنگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی کے بعد رفع حاجت کی وجہ سے جان بحق ہونا شروع کریں
یہاں مجھے سیّدمحمد جعفری کی ایک نظم ’’بھنگیوں کی ہڑتال‘‘ یاد آرہی ہے۔
بھنگیوں کی آج کل ہڑتال ہے
کہتر و مہتر کا پتلا حال ہے
گردشِ دوراں نے ثابت کر دیا
رفعِ حاجت بھی بڑا جنجال ہے
ضَبط کی حد پر کھڑہیں شیخ جی
سانس کھینچتے ہیں مگر منہ لال ہے
پیٹ پکڑے پھر رہے ہیں سیٹھ جی
جیسے دھوتی میں بہت سا مال ہے
آگیا روکے سے رُک سکتے نہیں
اپنا اپنا نامہء اعمال ہے
ہر گلی کوچے کی اپنی جھیل ہے
ہر جگہ دلّی میں نیتی تال ہے

Tuesday, July 30, 2013

مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون..


بارش ہورہی تھی، میں سرتا پا بھیگا ہوا تھا۔ میں نے قمیض کے اوپر اُونی سویٹر، اس کے اوپر بھاری بھار کم جیکٹ ذیب تن کی تھی۔ جو جگہ جگہ سے منہ کھولے ہنس رہی تھی۔ آستین پر میں اپنی ناک کی مدد سے بلیک اینڈ وائٹ پینٹیگز بنائے تھے۔ اسی دوران میری نظر دیوار پرلاچاری اور بے سروسامانی کے عالم میں بیٹھی چڑیا پر پڑی۔
میں ٹکٹکی بھاند کر اسے دیکھتا رہا ۔ نجانے کب میری آنکھوں سے آنسوں رواں ہوگئے۔ وجہ دریافت کرنے پر میں نے اّمی کو اشارے سے چڑیا دیکھا دی اور بتایا کہ اس کا تو گھر بھی نہیں ہے۔ بارش ہورہی ہے ، کہاں جائیگی؟؟ میں امّی کے ساتھ خوبانی اٹھانے گیا تھا جسے رات تیز ہوا نے درخت سے گرائے تھے۔ "اللہ بڑا مہربان ہے۔ ان سب کی حفاضت کرتاہے۔ پرندوں کے بھی اپنے گھر ہوتے ہیں۔"
امّی نے پیار سے سمجھایا۔
یہ واقعہ تقریبا پندرہ برس قبل پیش آیا تھا۔ اس وقت میری عمر سات آٹھ برس تھی۔ آج زمانہ کتنا بدل گیا ہے؟؟ روز سینکڑوں لوگ مرتے ہیں۔ بھوک افلاس، بے روزگاری اور کئی دیگر وجوہات کی وجہ سے۔ لیکن کبھی آنسوں نہیں نکلتے۔ میں بڑا ہوگیا یا بے حِس؟؟ اکثر سوچتا ہوں تو فراق گورکھپوری کی غزل جسے جگجیت سنگھ کی آواز نے امر کردی ہے، یاد آتی ہے
تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

Thursday, July 25, 2013

گلستانِ مُلاّ ...




اگر تزئینِ چمن کا فریضہ کسی ملا ّ کو دے دیا جائے تو چمن "سدھارنے" اور پاک بنانے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کریگا۔
۔مرغ۔۔ شہنشاہ

مرغ چمن کا شہنشاہ ہوگا کیونکہ اسے آزان دینا آتی ہے۔ مینا، بلبل، طاوس سمیت تمام پرندوں کو مرغ کے مدرسے میں داخل ہوکر آذانیں سیکھنا
ہوںگی۔
۔ فقط پتّوں کے برقعے میں تبسم کی اجازت:

کلیوں اور پھولوں کو فقط پتّوں کے برقعے میں تبسم کی اجازت ہے کیونکہ چمن میں کلی کا پھول بننا بے پردگی اور "فحاشی" ہے۔ اس کئے لازم ہے کہ پھول اور کلیاں پتّوں سے پردے کا اہتمام کریں
۔
۔ ہوا اٹھکیلیاں مت کر:

ہوا اٹھکیلیاں مت کر کیونکہ اس کی وجہ سے درختوں کی شاخیں جھومنے لگتی ہیں اور چمن میں رقص کی بنیاد پڑتی ہے۔ شاخیں ایک دوسرے کو چھُولیتی ہیں، پتّے ایک دوسرے کو چُوم لیتے ہیں، پھر طاوس پنکھ پھیلا کر رقص کرنے لگتے ہیں۔ یوں چمن میں "بے حیائی" کی بنیا د پڑتی ہے۔
طاوس کے پنکھ کاٹ کر داڑھی بڑھانے کا حکم جاری کیا جائے۔
۔ تتلیوں کو کوڑے لگاو:

تتلیوں کی پُشت پر کوڑے لگادئے جائے کیونکہ یہ سرِعام پھولوں کے ساتھ بغل ہوجاتی ہیں۔ دوسرا قصوران کا رنگ برنگ لباس ہے۔ اس طرح یہ
"متّقی اور پرہیزگاروں" کا دیں خراب کرتے ہیں۔
۔ کوئل کی کُوکُو اور پرندوں کی چہچہاہٹ پر پابندی:

موسیقی چونکہ حرام ہے ،کوئل کی کُوکُواور پرندوں کا چہچہانا موسیقی کے ذمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا اس پر مکمل پابندی لگادی جائے ۔
۔مکڑی کو جالا بُننے پر پابندی:

مکڑی کا جالا بُننا کینوس پر پینٹنگ کے مترادف ہے۔ جو کہ سراسر حرام ہے۔اگر رذقِ حلال کی خاطر جالا بُننا مجبوری ہے تو ڈیزائننگ کے بغیر
سادہ جالا بُنا جائے۔ تاکہ دیکھنے والے اس طرف متوجہ نہ ہوں۔
7۔ خوشبو کا کسی جھونکے کی انگلی تھامنا نہیں جائز:

خوشبو کا سرِعام کسی اجنبی جھونکے کی انگلی تھام کر چلنا ناجائز ہے کیونکہ یہ جھونکیں "نامحرم" ہیں۔ کسی نامحرم کے ساتھ ایسے گھومنا "گناہِ کبیرہ" ہے۔

Sunday, July 21, 2013

ماہِ صیام کا تقاضا اور ہمارا رویّہ...

اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہِ صیام انکساری ، قناعت ، برداشت اور اپنی نفسیاتی خواہیشات پر قابو پانے کا درس دیتا ہے تاہم آج کا مسلم معاشرہ خصوصاً پاکستان میں صورتِ حال بالکل اس کے بر عکس ہے۔ ہر سال کئی ایسے واقعات اخباروں کی زینت بنتے ہیں جو ملک اور مذہب دونوں کو بُری طرح بد نام کرتے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے دنوں گلگت میں پیش آیا۔ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد چند ڈنڈا بردار عناصر نے ایک مقامی ہوٹل پر دھاوا بول دیا ان روزہ داروں نے سب سے پہلے ہوٹل کے مالک کو مارا پیٹا پھر باقی ’’مذہبی فریضہ‘‘ ہوٹل کے فرنیچر اور دیگر اشیاء توڑ پھوڑ کر ادا کیا۔ہوٹل سے کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا کر باہر پھینک دی گئیں اور وہاں موجود لوگوں کو بھی نہیں بخشا۔وجہ یہ تھی کہ رمضان کے مہینے میں یہ ہوٹل بند نہیں کیا تھا۔ تحقیقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ DHQ ہسپتا ل گاہکوچ کے پاس بنا یہ چھوٹا ہوٹل مسافروں کے لیے طعام کی فراہمی کے واسطے مقامی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نامہ(پرمٹ) کے حصول کے بعد کھُلا رہتا ہے۔ قارئین ذرا غور کیجیے ! ہم پوری دنیا میں اپنی ساکھ کو کس طرح خراب کر رہے ہیں یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ہمارا مذہب اس طرح تشدد کرنے اور دہشت پھیلانے کا درس دیتا ہے؟کیا ریاستی قوانین کو توڑنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا روزے کا تقاضا یہی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔۔یہ ڈنڈا بردار افراد نمازِ جمعہ ادا کرکے آئے تھے اور ماشاء اللہ سے روزہ دار بھی۔۔لیکن انہوں نے جو پُر تشددرویّہ اختیار کیا اس کا درس کم از کم مذہبِ اسلام نہیں دیتا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک قطرہ خون بہائے بنا مکہ فتح کیا تھا لیکن ان تاریخی واقعات کو ہم صرف جمعے کے خطبے میں دہراتے ہیں اور عملی زندگی میں ان پر عمل کرنا گوارا نہیں کرتے۔یہ عناصر اپنے بنائے فیصلوں کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں اور بسا اوقات ریاستی قوانین کو کُچلتے نظر آتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ حضرات اس ہوٹل کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کر لیتے یا پھر باہمی گفت و شنید کے ذریعے اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرتے۔۔لیکن انہوں ایسا نہیں کیا۔ ڈنڈے اُٹھائے مار پیٹ کی،تشدد کیااور اسے اسلام کی خدمت قرار دے کر’’اپنے نیکیوں میں اضافہ کیا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان عدم برداشت اور صبرو تحمل کے فقدان کی وجہ سے بدنامی کا شکار ہو رہے ہیں جو کہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کے بعد خاموش کیوں ہیں؟اگر وہ تحفظ فراہم کرنے کے اہل نہیں اور ایسے شر پسند عناصر کو لگام دینے میں بے بس ہیں تو اجازت نامہ(پرمٹ) کیوں جاری کیا؟؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے گھناؤنے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور ایسے پُر تشدد واقعات کے مرتکب افراد کو کڑی سے کڑی سزا دے اور لوگوں کے مال و جان کے محافظ ہونے کا ثبوت دے۔

Tuesday, May 14, 2013

ووٹ حسین کا ,.. صحابہ کے غلام کا !!!


پاکستان کے شہروں کی دیواریں ہمیشہ مختلف چاکنگ سے "سجی"رہتی ہیں۔ بنگالی بابا کا جادو، دیسی منجن کے فوائد، انگلش میڈیم اسکول تعریفیں(جو عموماایک کمرے پر مشتمل ہوتے ہیں)، کوچنگ سینٹروں کی "کارکردگی" ، تین ماہ میں انگریزی سیکھانے والے سینٹرز کی "خدمات" ان دیواروں پر سالہاسال نظر آتے ہیں۔ یہ دیواریں مفت میں ان تمام اداروں اور چیزوں کو مشتہر کرتی ہیں۔ الیکشن کے موسم میں یہاں دیواروں کی قسمت بھی "جاگ" اُٹھتی ہے۔ کیونکہ انھیں رنگ برنگے نعروں سے سجا دیا جاتا ہے۔ یہاں مختلف سیاسی جماعتیں کھوکھلے مگر دلچسپ نعروں سے "سجا"دیتے ہیں۔ سیاستدان ووٹ حاصل کرنے کے لئے تمام چال چلاتے ہیں اور ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔حتی کہ وہ مذہب،اللہ، رسول،صحابہ کرام اور اماموں کو بھی نہیں بخشتے۔
کچھ ایسے ہی نعرے حالیہ الیکشن میں بھی مفادپرست سیاستدانوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ایجاد کئے۔
مثلا "جان بھی حسین ً کی ووٹ بھی حسین ً کا" پاکستان میں مذہبی عقیدت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ایک سیاسی جماعت جس کا انتخابی نشان خیمہ تھا، نے سیاسی جلسوں میں اسے "امام حسین ً کے خیمے" سے تشبہ دیا۔
ایک اور جماعت نے بھی ایسا ہی دلچسپ نعرہ ایجاد کیا،جو ہمارے اطراف کی دیواروں پر اب بھی موجود ہے

"ووٹ صحابہ کےغلام کا"
یہاں ووٹ حاصل کرنے کے لئے صحابہ کرام کے اسما ء گرامی کا سہارا لیا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ان نعروں کی وجہ سے بے وقوف بن جاتے ہیں۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہےکہ پاکستان میں آج تک کبھی کوئی مذہبی جماعت کو عوام نے ساست میں قبول نہیں کیا۔ ورنہ خدانخواستہ پاکستان آج دنیا کے نقشے سے غائب ہوتا۔
ایک اور دلچسپ نعرہ جو دیواروں پر سب سے ذیادہ نظر آتا ہے وہ کچھ یوں ہے
"تبدیلی کے تین نشان، اللہ، محمد اور قر آن"

کاش مذہب،اللہ، رسول،صحابہ کرام اور اماموں کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنے سے قبل تھوڑی دیر کے لئے سوچتے۔۔۔۔۔۔ اگر یہی کام ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے علاوہ کوئی اور کرتا تو "گناہِ کبیرہ" کے زمرے میں آتا، اور "سر تن سے جدا" کا نعرہ لگاکر کئی "غازی" میدان میں کُود پڑتے۔ ان مقدس ناموں کے تقدس کی پامالی سب سے ذیادہ یہی لوگ کرتے ہیں۔

Wednesday, May 8, 2013

مہذب کُتّے


یونیورسٹی کی کینٹین کے باہر طلبا کا بڑا رش تھا، تمام طلبا چیخ چیخ کے کینٹین والے کو آوازیں دے رہے تھے کہ پہلے انھیں چیزیں دے دی جائے۔ اسی بھیڑ میں مجھے دو کُتے بھی نظر آئے، جو ایک طرف کھڑے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ میرا دوست بڑی دیر سےغور کے ساتھ کُتوں کو دیکھ رہا تھا، مجھ سے کہنے لگا
"یار علی! جامعہ کے کُتے بھی مہذب ہیں، بھونکتے نہیں ہیں۔"
میں نے عرض کیا "جناب ! آپ اپنے جملے میں سے لفظ "بھی" ہٹا دیجئے اور اس کی جگہ "ہی" لگادیجئے۔" اس کے منہ پہ بنا سوالیہ نشان مجھے نظر آرہا تھا، اس لئے کہاکہ
جامعہ کے کُتے "ہی"مہذب ہیں۔

Tuesday, May 7, 2013

گٹر میں شہید



ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخوا میں ہندو نوجوان کو بچاتے ہوئے دو مسلمان ہلاک ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق ایک ہندو جوان گٹر کی صفائی کے لیے نیچے اترا جہاں زہریلی گیس کے باعث وہیں بے ہوش ہو گیا۔ راجیش کی جان بچانے کے لیے ایک داؤد نامی نوجوان گٹر میں اترا لیکن وہ بھی وہیں بے ہوش ہو گیا۔ ان دونوں کو بچانے کے لیے قریبی مسجد سے حافظ اسداللہ وہاں پہنچا اور انھیں بچانے کے لیے گٹر میں اتر گیا، لیکن بدقسمتی سے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ بھی گٹر میں گر گیا جس کے نتیجے میں تینوں ہلاک ہو گئے۔
انسانی رواداری کا یہ واقعہ آخر دنیا کو کیوں نظر نہیں آتا؟؟؟؟ کاش ہمارا میڈیا الیکشن مہم میں مصروف سیاست دانوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اس واقعے کو بھی کووریج دے دیتا۔کاش
خیبر پختونخوا جو کہ فرقہ ورانہ تشدد اور مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے مشہور ہے، میں ایسے واقعے کا رونما ہونا شائد پوری دنیا کے لئے اچھنبے کی بات ہو لیکن میرے لئے نہیں۔ یہ واقعہ پوری دنیا کو چیخ چیخ کے یہ بتا تا ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں اور نہ ہر مدرسے کا طالب علم خودکش بمبار ہوتا ہے میں "شہید" داود اور شہید حافظ اسداللہ کو سلام پیش کرتا ہوں۔

میرے نزدیک ان دونوں کا مقام اور رتبہ ایسے افراد سے لاکھوں درجہ اچھا ہے جو مذہب اور سیاست کے نام پر بے گناہوں کو مارتے ہیں اور بے موت مرتے ہیں۔ لفظ "شہید" ایسے افراد کے لئے ہی استعمال ہونا چاہیے، نہ کہ ان درندوں کے لئے جو مسجدوں ، مزاروں اور مارکٹوں میں معصوم لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔

Wednesday, February 20, 2013

پانچ اہم اسباق۔۔۔۔ چند مِنٹوں میں


اس دِن ہم ایک دوست کو کراچی ائیرپورٹ سے اسلام آباد کی طرف روانہ کر کے واپس آرہے تھے ۔فروری کی سرد شام ، اور ٹھنڈی ہوائوں کا گالوں کوچھُونا بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ میرے اُلجھے خیالات کی طرح بال بھی الجھے ہوئے تھے اور کراچی کی یخ ہوا انھیں مذید اُلجھا رہی تھی۔پانچ منٹ کی مسافت کے بعد ایک سگنل پہ لال بتی روشن ہوگئی اور تمام گاڑیاں رُک گئی۔ میں برابر میں کھڑی گاڑی کے شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا جس میں ہوا میرے اُلجھے ہوئے بالوں کو سُلجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اتنے میں سگنل کھُل گیا اور گاڑیاں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئیں۔ اسی لمحے پیچھے شور اور چیخنے کی آواز آئی،مُڑ کے دیکھا تو ایک کار اور موٹر سائیکل ٹکراگئی تھیں، ایک ادھیڑ عمر کا شخص روڑ پر گِرا ہُوا تھا ۔ لوگ اردگرد جمع ہوتے جارہے تھے۔ ہم بھی موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کر کے وہاں پہنچ گئے۔ 1ہم نے اس شخص کو اٹھاکر فٹ پاتھ پر بیٹھایا ،اس کی ٹانگ کی ہڈی برُی طرح ٹوٹی ہوئی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔اس کے ساتھ ایک بچہ اور بھی سوار تھاجو بالکل ٹھیک ٹھاک تھا ۔ آدمی درد کی شِدت سے بُری طرح کراہ رہا تھا، اسے پانی پلایا گیا تو سب سے پہلا سوال اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا جسے خراش بھی نہیں آیاتھا۔ وہ چونکہ حساس ایریا ہے اس لئے پولیس پہلے سے موجود تھی۔ زخمی شخص کوہم نے اُسی کار میں بیٹھا کر ہسپتال بھیج دیا ، جس سے بائک ٹکراگئی تھی۔پھر ہم ہاتھ دھو کر (جن پہ خون لگ گیاتھا) اپنے گھر کی طر ف نکل پڑی۔اس واقعے نے پانچ اہم اسباق سیکھادئیی۔
پہلاسبق :صبر اور قانون کی پاسداری
وہ آدمی چند منٹ صبر کا مظاہرہ کرتا ،ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کرتا تو حادثے کا شکا ر نہیں ہوتا۔ نہ اس کی ٹانگ ٹوٹتی اور نہ گاڑیوں کو نقصان پہنچتا اور نہ ہی ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا ہوتا۔ دوسرا سبق: والدین کی محبت
وہ شخص خود بُری طرح زخمی ہونے کے باوجود سب سے پہلے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا۔جو بالکل خیروعافیت سے تھا۔ اسے اپنے زخموں سے زیادہ فِکر بیٹے کی تھی۔ اس سے بڑھ کر محبت کی اور کیا مثال دی جا سکتی ہی؟
تیسرا سبق: غرور ،گھمنڈ
انسان اپنے طاقت اور جوانمردی پر بڑا ناز کرتا ہی۔ وہ آدمی چند منٹ قبل توانا اور صحت مند تھا ، اب اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ انسان کو ہر لمحہ یہ سوچنا چاہیے کہ اُسے ایک دن اسی مٹی میں ملنا ہے ۔ ہمارا خوبصورت چہرہ، توانا جسم سب مٹی میں مل جائیگا جس پہ آج ہمیں غرور ہی۔
چوتھاسبق: انسانیت
حادثے کے بعد اپنی موٹر مائیکل کو ایک طرف پارک کر کے جائے حادثہ تک پہنچنے تک ہمیں تقریباً تین منٹ لگ گئے تھی،تب تک بھیڑ وہاں جمع ہو گئے تھی۔لیکن مدد کر نے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھا تھا۔کیا ہمارا مذہب یہی درس دیتا ہی؟ایک انسان زمین پر پڑا تڑپ رہا ہی،ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہی،خون بہہ رہا ہے اور لوگ کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ایسا ہی واقعہ آپ کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہی۔
پانچواں سبق :پولیس اہلکاروں کی نا اہلی
جائے حادثہ پر پولیس موجود تو تھی لیکن رپوٹ لکھنے اور گاڑیوں کے کاغذات کا مطالبہ کر نے میںمصروف تھی،وہ یہ کام ہسپتال پہنچ کر ابتدائی طبی امداد کے بعد بھی کر سکتی تھی۔ ہمارے ارد گرد روزانہ سینکڑوں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، ہمیں ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہئے