Thursday, January 26, 2012

..........کا فر موبائل .........

میرے سامنے مُلک کا کثیر الاشاعت اخبار پڑا ہی۔جس کے فرنٹ پیج پر ایک موبائل کمپنی نے ایک اشتہار دِیا ہی،جس میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ یہ کمپنی غیر اسلامی نہیںہی۔ پچھلے کچھ دِنوں سے یہ باتیں گردِش کر رہی ہیں ہیں کہ مذکورہ موبائل کمپنی کافروں کی ملکیت ہے ۔میرے ایک دوست نے بھی مجھے یہ بات بتادی کہ ہمیں اس کمپنی کے موبائل فون استعمال نہیں کرنے چاہیی۔ یہ سب باتیں سُن کر ہنسی بہت آتی ہے اور ان سب کی سوچ پر افسوس بھی بہت ہوتا ہی۔ کہ ان لوگوں کو بیت الخلا کے لوٹے میں بھی مذہب کیوں نظر آتا ہی؟؟؟میں ان تمام لوگوں چند سوالات عرض کرتا ہوں۔ کیا باقی تمام موبائل کمپنیاں مسلمانوں کی ہیں؟؟؟کیا مو بائل کا موجد کوئی مولوی ہی؟؟؟ ایک پین کی نِپ سے لیکر ہوائی جہاز اور دیگر تمام مشینیں، اور ضروریات ذندگی کے 100% ایجاداد غیر مسلموں کی ہیں۔کیا ہم ان تمام چیزوں کا با ئیکاٹ کر سکتے ہیں، بجلی،ٹی۔وی، موبائل،کمپیوٹر اور دیگر اشیا ء جو آج ہماری ذندگی کا حصّہ بن گئی ہیں، سب انگریزوں کی مہربانی ہی۔ ہم تو صرف اپنی شاندار تاریخ کو جمعے کے خطبے میں چیخ چیخ کر انگریزوں کی ایجاد کردہ لائو ڈ اسپیکر کے ذریعے دُہراتے ہیں۔ کبھی کبھار مایوس ہوکر کہتا ہوں۔۔ .....................قصّہ ماضی بنایا ہے میرے مذہب کو)......... ..........(قصّے ماضی کے دُہرائے ہی چلے جاتے ہیں............................ اگر ہم ان تمام گوروں کی ایجاد کردہ چیزوں کا بائیکاٹ تو واپس پتھر کے زمانے میں چلے جائینگے

Sunday, January 22, 2012

.........ظالم کون۔۔؟؟ مظلوم کون۔۔۔؟؟.............

شدید فائرنگ سے میری آنکھ کھُل گئی، میں فلیٹ کے بالکو نی میں چلاگیا،میری ادھی آنکھیں کھلی ہوئی تھی اور دماغ پر نیند سوار۔ چوتھی منزل سے میں با اسانی نظارہ کر سکتا تھا۔ ایک فریق ہمارے فلیٹوں میں اور دوسرا گروپ سامنے زیر تعمیر مسجد میں مورچہ زن تھا،یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہا۔ اگلی صبع جب میں یونیورسٹی جانے کے لئے کالونی کے داخلی دروازے سے گزررہا تھا تو دیوار پر لگی بینر نے مجھے اپنی طرف متّوجہ کیاجس پر لال رنگ سے دو بندوں کے نام کے سامنے لفظ ’’شہید‘‘ لکھا ہوا تھا اور نیچے تفصیل میں خود کو حق بہ جانب اور مظلوم لکھا تھا۔ دوسرے گروپ کو ظالم ، یزید قرار دِیا تھا۔ میں آگے بڑھ گیا مسجد (جہاں کل شام ایک گروپ مورچہ زن تھا) کے دروازے پر ایک کئی میٹر لمبا بینر آویزاں تھا۔ یہاں اِس فریق نے خود کو مظلوم اور حق کا سفیر لکھا تھا، اور دوسری جماعت کو ظالم، یزید اور کافر جیسے القابات سے نوازا تھا۔ اس بینر میں لکھے معلومات کے مطابق اس گروپ کے دو بندے ظلم کے خلاف ’جہاد ‘ کرتے ہوئے ’شہید‘ ہوگئے ہیں۔یہاں یہ عہد بھی کیا تھا کہ وہ یہ ’جہاد‘جاری رکھیںگی۔ میرے ذہن میں کئی سولا ت گردش کرنے لگے جیسی۔۔۔ظالم کون؟ مظلوم کون؟؟اس واقعے کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے ایک انکل سے رجوع کیا جو پندرہ سالوں سے یہاں سبزی کی ریڑی لگاتے ہیں۔میرا سوال سُن کر انھوں نے پہلے انھوں نے دو گروپوں کو لاتعداد غلیظ گالیوں سے نوازاپھر واقعے کی تفصیلات کچھ یوں بتادی۔ ’’کچھ روز قبل ان میں سے ایک گروپ نے سامنے کی خالی اراضی پر قبضہ کیا اور چار دیواری بنادی۔ ایک ہفتے بعد دوسرے گروپ نے یہ چاردیواری گِرادی اور راتوں رات اس پلاٹ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کر دیااور آہستہ آہستہ اِرد گِرد کے پلاٹس پر قبضہ جمالیا۔ یوں یہ جنگ جاری ہے جس نے آدھے درجن انسانوں کی جانیں لی ہیں۔پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ‘‘ اس واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیا جو میرے دماغ کے دَر کو پیٹتے رہتے ہیں۔ ان دونوں مسلمان کلمہ گو گروپوں میں ظالم کون اور مظلوم کون؟؟؟کیا اس طرح زمین پر نا جا ئز قبضہ کر کے مسجدوں اور عبادت گاہوں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہی؟؟؟ کیا یہ جائز عمل ہی؟؟ یہ تمام لوگ ثواب کما رہے ہیں یا گُناہ؟؟؟؟کیا ان تمام افراد کو شہید کہہ سکتے ہیں جو اس طرح کے جھگڑوں میںمارے جاتے ہیں؟؟؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ یہاں مولوی صاحبان ایک دوسرے کے خلاف کے کفر کا فتویٰ دینے اور نفرتیں پھیلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا ذورلگاتے ہیں، حتیٰ کہ قرآن پاک اور احادیث کو بھی نہیں بخشتے ہیں، وہ ایسے مسئلوں پر کیوں نہیں بولتے ہیں؟؟؟ مجھ جیسے اور کتنے لوگ ان جوابات کے منتظر ہیں اور کنفیوز ہیں کہ مظلوم کون؟ ظالم کون؟؟؟یزید کا پرچار کون کرتا ہے اور حق کا سفیر کون ہی؟؟؟ ان تما م حضرات کو چاہیے کہ نفرت کی اس آگ کو ہوَا دینے کے بجائے اسے بُجھادینے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Thursday, January 19, 2012

..... نور......

میں بڑے غور سے آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا ۔ لیکن مجھے اپنے چہرے پر وہ مطلوبہ چیز نظر نہیں آ ہی تھی، جو میرے دوست کو بڑے عرصے بعد کے ملاقات کے بعد نظر آگئی تھی۔میں اپنے منہ کو آئینے کے اور قریب لے گیاحتیٰ کہ میری ناک آئینے سے ٹکراگئی اور میں اپنے عکس سے رُو برو ہوگیا۔ میرے بارہا کوشش کے باوجود مطلوبہ چیز ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ میرا یہ دوست چھے (۶) مہینے کے طویل مُدت کے بعد مِلا تھا، اس پورے عرصے میں میںنے اپنے بال نہیں کٹوائے تھی، جو اب کافی لمبے ہوگئے ہیں۔ داڑھی موچھوں کے گِنیی کے بال بھی بکھرے ہوئے ہیں۔ ا نہی بالوں میں میرے دوست کو ایک چیز نظر آگئی تھی، جو مجھے ڈھونڈنے سے نہیں مِل رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھ کے کہا تھا ’’ماشااللہ تیرے چہرے پر نور آگیا ہی۔‘‘ لیکن مجھے وہ نور نظر نہیں آرہا ہی۔ میں آئینے کے سامنے اپنے عکس میں وہی ڈھونڈ رہا ہوں