Saturday, September 24, 2011

مرثیہ مقید ذہن


مرثیہ مقید ذہن
آخر کب تک میرا ذہن مقد رہے گا؟؟
کب تک مجھے مجھ سے نہیں ملنے دیا جائیگا؟؟
کب تک میں اپنے آپ سے دوری کا ستم برداشت کرتا رہونگا؟؟
کب تک میں اپنے آپ سے ملنے کے لئے ترستا رہونگا؟؟
اپنے آپ سے یہ فراغت آکر کب تک؟؟
اور کتنے غموں کو اپنے ’’مقید رہن‘‘ میں جمع کرتا رہونگا؟
یہ طنز کے کوڑے کب تک میر مقید ذہن کے پیٹھ پر برستے رہینگی؟؟
باتوں اور سوالوں کا یہ بوجھ کب تک اور کیونکر میرا مقید ذہن برداشت کریگا؟؟
اس ناتواں اور مقید پر اتنا بوجھ کیوں لدا جارہا ہی؟؟
اس سے ملتے جلتے سینکڑوں سوالات ہمیشہ میرے دل و دماغ کے دروازوں پر دستک دیتے رہتے ہیں اور جوابات کے منتظر دکھائی دیتے ہیں میں انہیں ہر لمحہ، ہرپل، ہرجگہ اپنا منتظر پاتا ہوں لیکن۔۔۔۔
لیکن افسوس ہمیشہ انہیں ’’سوالیہ نشان‘‘ سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔ اس میں میرا بھی کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ان کے جوابات جاننے کے لئے میں بھی برسوں سے بے قرار منتظر ہوں۔
اکثر سوچتا ہوں کہ مجھ سے ان قاتل سوالات کا کیوں سامنا کرنا پڑتا ہی؟ کیا میرا مستقبل ان ’’قاتل‘‘ جملوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے جن کا ہمیشہ سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ہاں تو مجھے ایسے مستقبل کی کوئی ضرورت نہیں جو ہر روز مرنے کے بعد ملتا ہو۔ یہ سوالات مجھ جیسے سینکڑوں میں کے دماغ میں پیدا ہوتے ہونگے اور ’’سوالیہ نشان‘‘ سمیت جوابات کے منتظر ہونگی۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ اس ’’کینسر‘‘ کا شکار ہیں۔ کوئی ’’بابا گیری‘‘ تو کوئی ’’چچا گیر‘‘ کا شکار ہی۔
اس کے لامحدود نقصانات ہیں جن کا علم ان لوگوں کو نہیں جو اپنی سوچیں دوسروں پر مسلط کرتے ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ایک آزاد پنچھی کو پنجرے میں بند کردیتے ہیں۔ وہ مقید پنجھی اپنی آزادی کے لئے اپنی چونچ پنجرے پر مار مار اپنے آپ کو اور زخم و غمگین کر دیتے ہیں۔ وہ بے چارہ مضبوط پنجرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن اپنا سر پنجرے سے ٹکرا دیتا ہی۔ اس صیاد جو پریشان و غمگین پنچھی کی حالت زار دیکھتا، اسے اپنے آپ کو زخمی کرتا دیکھ کر اسے غمگین و مضطرب پاکر شاید خوشی و سکون محسوس کرتا ہی
اس پنچھی سے کھلی ہری بھر فضا میں سانس لینے کا حق کیوں چھنا جارہا ہی؟ وہ بھی جاندار ہے جسم و جان رکھتا ہے اسے بھی اپنی زندگی جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک مضبوط و طاقتور عقاب یا شاہین کو۔ جس کی نگاہ صرف اپنی منزل کی طرف یوتی ہے کیونکہ اس کی نگاہوں اور توجہ کو کوئی اور مضطرب نہیں کرسکتا۔ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے منزل کی طرف اُڑان بھرتا ہی۔ اسے روکنے والا کوئی نہیں نہ کوئی پنجرہ نہ کوئی سلاخ! یہ سختیاں صرف مجھ پر اور مجھ جیسے معصوم و کمزور پنچھی پر کیوں؟؟
رشک اس سوچ پر جو لوگ بغیر کچھ جانے دوسروں پر مسلط کرتے ہیں کہ ان پروں میں اتنا بوجھ سہنے کا دم نہیں ہی۔ مگر وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس کے نتائج کتنے سنگین ہوسکتے ہے ں۔ دنیاوی ناکامی پر طنز کی بارش کیوں!!
ان بوند نما کوڈوں کو جواب دینے کی ہمت مجھ میں کیوں نہیں۔ اپنی اس کمزوری کا ذمہ دار میں کس کو ٹھہرائوں؟
ان سب سوالوں کے جوابات کون دیگا میں انتظار میں ہوں اس مسیحا کا جو مجھے ان قاتل سوالوں سے جان چھڑانے میں میری مدد کرے اور مجھ اپنے آپ سے ملاقات کا شرف بخشے گا۔
مین منتظر رہونگا اس عسیٰ کا جو میرے مردہ جسم میں نئی جان ڈاں دیں اس نوح ؑ کا جو مجھے ان قاتل سوالوں کی طوفان سے بچاکر اپنی کشتی میں بٹھاسکی۔ کیونکہ یہی سوالات مجھ اپنے آپ سے دور لے جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں مجھے خوف ہے کہ یہ مجھے اس دنیا سے دوری کا سبب نہ بن جائی۔
بلبل کو باغبان سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھا تھا فصلِ بہار میں

1 comment:

  1. Best Of all. Strong writing!! Great Thought!!

    ReplyDelete