Saturday, September 24, 2011

مظلوم قیوم کی یاد میں

انسان کا پیٹ اس کا سب سے بڑا دشمن ہی۔ انسان ہمیشہ چاہتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے محفوظ اور دور رہے اور وہ اس کیلئے جتن بھی کرتا ہی۔ لیکن پیٹ ایک ایسا دشمن ہے جس سے انسان دور نہیں بھاگ سکتا اور نہ ہی اس کے وار سے بچ سکتا ہی۔ اسے بھرنے کے لئے یوں تو صڑف یک روٹی کی ضرورت ہوتی ہی۔ لیکن انسان اس کے بہکاوے میں آکے کیسے کیسے کام کرجاتا ہی۔ اپنے جیسے انسانوں کی جان تک لے لیتا ہے جب بے حسی انتہا کو پہنچ جاتے تو انسانیت کی سکیاں سنائی نہیں دیتی، انسان اپنی ذات میں گم ہوجاتا ہے اور کم ہوکر رہ جاتا ہی۔ وہ دنیا کی خوب صورتی اور رنگینی کا مطلب نہیں سمجھتا۔ وہ کسی کو ہنستا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ پھولوں کا خوشبو، پرندوں کی چہچاہٹ ہٹ اور بچوں کی معصومیت تک اس کو متاثر نہیں کرتی۔ ایسے لوگوں انسان کہنا انسانیت کی بے حرمتی ہی۔ ان کے اندر حیوانیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
انسانی تاریخ گواہ بے کہ زر، ذن اور زمین کی وجہ سے فتنے برپا ہوئے اور اکثر و بیشتر قتل و غارت اسی بات پر ہوئی۔ قتل ہابیل کے بعد سے یہ سلسلہ رُکا نہیں ہی۔ لوگ تھوڑے سے پیسوں کے لئے ایک دوسرے کی جان لے لیتے ہیں۔ ایسا ہی درد ناک واقعہ گلگت میں پیش آیا۔ گلگت جو کسی زمانے میں مہمان نوازی، سیاحت اور پرامن لوگوں کی وجہ سے مشہور تھا لیکن بدقسمتی سے آج وہی گلگت قرقہ واریت اور قتل و غارت کی وجہ سے جانا جاتا ہی۔
یہ وہی دھرتی ہے جس نے لالک جان اور نذیر صابر جیسے سپوتوں کو پیدا کیا۔ لیکن وہاں آج اسکول کے طالب علم کے ہاتھ میں بستے کے ساتھ پستول بھی ہوتا ہی۔ فرقہ واریت کا بیچ جو کبھی ضاالحق نے بویا تھا اب ایک تناور درخت بنا چکا ہی۔ لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کا قتل کر کے ’’جنت‘‘ جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ قتل و غارت عام ہے کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں غیرت کے نام پر اور کہیں کچھ پیسوں کے لئے ایک دوسرے کی جان لینے سے نہیں کتراتی۔
ایک ایسا ہی الم ناک واقعہ 22 اپریل 2010 کو پیش آیا قیول جس کا تعلق ضلع غذر، یاسین تھوئی ہی، تلاش رزق حلال کے سلسلے میں گلگت میں تھا دن بھر کی محنت و مزدوری کے بعد شام سات بجے وہ کھانا کھارہے تھے کہ کچھ درندہ نما انسان اسلحہ سمیت اس کے کمرے میں داخل ہوگئے اور پیسوں کا مطالبہ کیا۔ تکرار بڑھ گئی اور ظالموں نے فائر کرکے قبوم جو اپنے گھر کا واحد کفیل تھا شہد کردیا۔
لفظ ’’شہید‘‘ میں نے اس لئے لکھ دیا کہ، ایک معصوم مفت انسان جو اپنے والدین، اپنی اولاد اور اپنے گھر سے کوسوں دور محنت مزدوری کیلئے رزق حلال کما رہا تھا سفاک و عیاش ڈاکوں نے کچھ پیسوں کے لئے اس کی جان لے لی۔ اگر شہید سے بڑھ کر بھی کوئی مرتبت ہوتی تو میں قیوم کو اس کا حقدار سمجھتا ہوں۔

No comments:

Post a Comment