Saturday, September 24, 2011

تعلیم کے ساتھ کھلواڑ

زہرہ زاروقطار رو رہی تھی۔ یہ کسی دودھ پیتے بچے کی طرح اپنے سکیوں پر قابو نہیں کرپارہی تھی۔ آنسوں کا سیلاب اس کی آنکھوں سے جاری تھا۔ لڑکھڑاتی آواز میں وہ اپنا مسئلہ بتانے کی ناکام کوشش کررہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے دوپٹے کے پلو سے آنسو صاف کررہی تھی۔ لیکن اس کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اس نے کئی بار کوشش کی کہ گفتگو کو جاری رکھ سکے لیکن ہر دفعہ اُمڑتے آنسو اس کے راہ میں حائل ہوگئے تھے اور گفتگو کا سلسلہ رُک جاتا یوں مجبوراً اس کی والدہ نے اسکی کہانی کچھ یوں بیان کی۔
ذہرہ میری سب سے بڑی بیٹی ہے جب یہ میڑک میں تھی اس وقت اس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے اس سانحے کے بعد ذہرہ کو FSC تک محنت کرکے پڑھایا۔ پھر بطور Private امیدوار BA کرلیا اور ساتھ ہی Teaching کے متعلق ایک سرٹیفیکٹ کورس بھی کرلیا۔ میرے تین بٹیاں اور ایک بیٹا بھی اسکول میں زیر تعلیم ہیں میں بہت محنت مشقت سے ان کی فیسوں کا انتظام کرتی ہوں۔ جب زہرہ ایک مقامی اسکول میں پڑھانے لگی تو میں بے حد خوش تھی کہ میرے کاندھوں کا بوجھ اب ہلکا ہو جائیگا۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ یہ بوجھ مذید بھاری ہوکر میرے ناتواں کندھوں پر پڑجائیگا؟؟
شاید یہ مفلسی اور غم مجھ سے بے سہارا غریبوں کے لئے بناتے گئے ہیں میری بیٹی تین سالوں سے اسکوں میں پڑھارہی ہی۔ وہ صبح سویرے جاتی ہے اور پورے دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتی ہے اس کے جانے کے بعد گھر کے تمام کام کاج مجھے خود کرنے پڑتے ہیں لیکن اس کا صلہ ہمیں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔
نہ ان کی ملازمت مستقل ہے نہ ہی تنخواہ مل رہی ہے آخر کب تک میں یوں ہی کام کرتی رہونگی۔ کیا میری تمام اولاد اور میرے جیسے سب لوگوں کے ساتھ یہی سلوک ہوگا؟؟۔۔۔۔۔۔۔
یہ دکھ بھری کہانی سناکر زہرہ کی ماں بھی اپنے آنسووں کو ضبط نہ کرسکی۔ قارئین ’’پائوں ننگے ہیں بے نظیروں‘‘ کے مصداق گلگت بلتستان میں بہت ساری ایسی خواتین و حضرات ہیں جو ’’سیپ اسکولوں‘‘ سے وابستہ ہیں اور کئی مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
تعلیم اور ہمارے ملک میں اب ایک منافع بخش تجارت بن چکا ہی۔ ہر گلی کوچے میں ادھا درجن پرائیوٹ اسکول پائے جاتے ہیں۔ جن میں کہیں میڑک پاس Princpal کے عہدے پر فاتر ہے تو کہیں ٹھکیدار ہیڈ ماسٹر بنا بیٹھا ہے اور یوں بھاری فیس وصول کی جاتی ہیں تعلیم کا طبقات میں تقسیم ہونے کی وجہ سے اب صرف غریب لوگ ہی گورنمنٹ اسکولز کا رخ کرتے ہیں۔
Social action program (SAP) اسکول بھی اسی Categry میں آتے ہیں جہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کا تعلق معاشرے کے غریب ترین طبقہ سے ہوتا ہے پرائیوٹ اسکونر کی دوگنی فیس برداشت نہیں کرسکتی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غریب ہونا جرم ہی؟؟
کیا غریب والدین کی اولاد تعلیم حاصل نہیں کرسکتی؟؟ حکومت ان لوگوں کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کیوں اور کب تک روارکھے گی؟ یہ چند ایسے سوال ہیں جو کئی لوگوں کے ذہنوں پر دستک دیتے ہیں اور جواب کے منتظر ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں تقریباً 45 ہزار بچے سیپ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان اسکولوں کے اساتذہ پچھلے چھ مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں جو پوری محنت ور لگن سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں لیکن تنخواہوں کی عدم آدائیگی کی وجہ سے یہ لوگ اپنے لئے کچھ اور ذریعہ معاش کے بھاگ دوڑ میں لگ گئے ہیں۔ ظاہر سی بات گھروں میں فاقوں کی نوبت آجائے تو کب تک یہ بلا معاوضہ کام کرتے رہے گی۔ میری حکام بالا سے یہ اپیل ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کرے اور طلبہ و اساتذہ کو اندھیروں کی طرف نہ دھکیل دیں جو ملک و قوم کا اثاثہ ہیں یوں ہمارا مستقبل اندھیروں میں ہمارا منتظر ہوگا۔

1 comment:

  1. Its not only the problem of Gilgit Baltistan....Its going on overall Pakistan....In Almost every field!

    ReplyDelete