Friday, November 14, 2014

“ہوچکا ہے حادثہ یا حادثہ ہونے کو ہے”

دل چاہ رہا ہے کہ معصوم حسنین کے قاتلوں کی آنکھیں نوچ لوں اور ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کو کھلادوں۔ “
کیا میں درندہ ہوگیا ہوں؟ اگر نہیں تو کسی انسان کے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتا ہوں۔؟
ا
گر ہاں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ مجھ میں یہ درندگی کیوں اور کیسے جاگ اٹھی؟؟



ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے اور ہر واقعے سے پہلے ایک واقعہ رونما ہوچکا ہوتا ہے جو دوسرے واقعے کا سبب بنتا ہے۔ پہلا واقعہ دوسرے واقعے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
یں تشدد پسند نہیں ہوں۔ مجھ میں درندگی اس معصوم بچے کی خون سے تر چہرے کی تصویر دیکھ کر جاگ اٹھی۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد ہمارے اہل قلم مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فرض کیجئے انہیں سزا مل جاتی ہے تو کیا اس کے بعد گلگت میں اس قسم کے واقعات رونما نہیں ہونگے؟؟ اگر ہم نے پہلے واقعے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا تو آیندہ بھی اس طرح کے واقعات یقینآ رونما ہونگے کیونکہ جس معاشرے میں بے زبان جانوروں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہو وہاں کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا بلی کے خواب میں چھیچھڑے کے مترادف ہے۔
آج سول سوسائٹی اور حکومت “پہلے واقعے” کے بجائے “دوسرے واقعے” کو اہمیت دے رہی ہیں اور اس پر غور کر رہی ہیں۔ ہمیں پہلے واقعے کا بارے میں بھی سوچنا پڑیگا  کہ یہ نوعمر لڑکے اس جرم کے مرتکب کیوں ہوئے؟؟۔  ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ہمیں مندرجہ زیل سوالوں کے متعلق بھی سوچنا ہوگا کہ کیا والدین گھر میں انٹرنیٹ لگانے سے پہلے اس کے مثبت استعمال کے بارے میں بتا تے ہیں؟ کیا بچوں کو “سمارٹ فون” دلانے قبل اس کے استعمال کے بارے میں آگہی دی جاتی ہے؟؟ کیا اسکول میں بچوں کے اساتذہ تربیت یافتہ ہیں جو بچوں کی رہنمائی کر سکیں؟
کیا معاشرے میں چائلڈ رائٹس اور ان کی تحفظ کے متعلق کسی قسم کا پروگرام منعقد ہوتا ہے؟ کیا والدین اپنے بچوں کے دوستوں کے بارے میں جانتے ہیں؟؟

بقول شاعر
آو مل کر سمیٹ لیں خود کو
اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے
ورنہ خدانخواستہ گلگت بلتستان کے حالات بھی پاکستان کے دیگر شہروں  جیسے نہ ہوجائیں کہ بقول جون ایلیا “اب کسی آدمی کے قتل ہونے کی خبر کوئی خبر نہیں رہی۔ ہوسکتا ہے قتل کی خبریں اپنا اثر کھو دینے کے باعث آیندہ اخباروں میں چھپنی بند ہوجائیں۔ “
ہمارے محترم دوست عمیر علی انجم کا یہ شعر اس صورت حال کی بھرپور عکاسی کرتا ہے
شہر کیوں سنسان ہے ویران کیوں ہیں راستے”
“ہوچکا ہے حادثہ یا حادثہ ہونے کو ہے

(یہ مضمون آن لائن پامیر ٹائمز پہ شائع ہوا ہے) Nov 14, 2014 pamir times

No comments:

Post a Comment