Saturday, December 17, 2011

انتظار۔۔



وقت کی کمزور ٹہنی پر
اپنے آشیانے سے دور بہت
میں اس بُلبل کی مانند بیٹھا ہوں
جسے اندیھری رات کا خوف ہی
کسی شاہین کے وار کا ڈر ہی
میں بھی ویسے ہی سہما بیٹھا ہوں
شام کی تیز ہوائیں ٹہنی سے
اپنے طاقت کو آزماتی ہیں
جھولتی بَل کھاتی ٹہنی پر
بڑی مشکل سے سنبھل بیٹھا ہوں
کسی جُگنو کی راہیں تکتا ہوں
ٓآشیانے تک جو پہنچادے مجھی
منتظر ہوں اس مسیحا کا
جو آندھیوں بچا لے مجھی

No comments:

Post a Comment