Sunday, April 12, 2015

مشرق وسطیٰ کے حالات اورگلگت بلتستان

جس طرح کسی حکمران کے چند اچھے اقدامات سے ملک ترقی کے منازل بحسن خوبی طے کرتا ہے بالکل اسی طرح ان کے ایک غلط فیصلے سے نہ صرف پورے ملک کے عوام متاثرہوتے ہیں بلکہ اس کے اثرات خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات پر مرتب ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے جاری ہونے والے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کی سر براہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں سعودی عرب اور یمن کے درمیان جاری صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور یہ اعلان جاری کر دیا ہے کہ پاکستان سعودی سالمیت کے خطرے پر بھر پور ساتھ دیگا۔ یاد رہے کہ اس اہم اجلاس میں بری اور فضائیہ کے سربراہان نے بھی شرکت کی ۔
اس فیصلے بعد ملک کے چند شہروں میں مذہبی اور سیاسی مذہبی جماعتوں نے اس فیصلے کے حق میں اور مخالفت میں احتجاجی مظاہرے کئے اور شدید رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ملک پہلے سے ہی مسلکی منافرت کی آگ کے لپیٹ میں ہے اور یہ فیصلہ اس آگ کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔ اس کی تازہ مثال کراچی اور لاہور میں ہونے والے مظاہرے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں جماعت الدعوہ نے احتجاجی ریلی نکالی جس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید نے حکومت کے اس فیصلے کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ شرکاء ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری مسلم امہ کو اپنے ملک سے زیادہ حرمین الشریف کی فکر کرنی چاہیئے اور سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہئے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ یمن کے باغی امریکہ اور اسرائیل کی اشرواد سے بغاوت کر رہے ہیں۔ 
دوسری جانب کراچی میں مجلس وحدت المسلین نے نہ صرف حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت میں ریلی نکالی بلکہ یمن میں جاری جنگ کو عوامی انقلاب قرار دیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علی انور نے کہا کہ ’سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں اپنی لگائی آگ میں خود جل رہا ہے۔‘ سنی تحریک نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود نوازحکومت کاسعودی عرب کی حمایت کا فیصلہ جلاوطنی کے دور کی ’’میزبانی‘‘ کا انعام ہے اور یہ بات تو بالکل ہی واضح ہے کہ نواز شریف کا جھکاؤ سعودی عرب کی جانب بہت زیادہ ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پاکستان ان دنوں کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ فوج اپریشن ضرب عضب طالبان سے لڑ رہی ہے اور ملک بھر میں ہونے والے خودکش حملے سیکیوریٹی کے لیے چیلنج بن گئے ہیں ۔ سانحہء پشاور اورکراچی میں سکولوں کو ملنے والی دھمکیوں نے صورت حال کو مزید تشویش ناک بنادیا ہے۔ 
حکومت پاکستان کو اس طرح کے نازک موقع پر پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چایئے۔ میاں نواز شریف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ایسے کسی بھی فیصلے کی وجہ سے پاک ایران تعلقات پہلے جیسے نہیں رہیں گے کیونکہ ایران یمن کے الحوثیوں کی حمایت کرتا ہے۔ حکومت کو حزب اختلاف کی اس بات پر غور کرنی چاہئے کہ یہ پرائی جنگ ہے اور پاکستان پہلے ہی پرائی جنگوں میں بہت کچھ کھو چکا ہے۔ حکومت پہلے اپنے ملک کی سالمیت کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لینا چاہئے اور درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔
حالات اور واقعات کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس جنگ کے اثرات گلگت بلتستان پر بھی ہونگے۔ گلگت میں منعقد ہونے والے دو مختلف اجلاس میں مذہبی سیاسی جماعت وحدت المسلمین اور تنظیم اہلسنت کے مقریرین کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سال مذہبی منافرت مٹانے کا شیخ و ملا کا وعدہ صرف وعدہ ہی تھا۔ ایک خبر کے مطابق اہلسنت والجماعت کے امیر قاضی نثار احمد کی صدارت میں جامعہ مسجد گلگت میں منعقد ہوا جس میں جماعت کے مرکزی عہدہ دران نے شرکت کی۔ جس میں الحوثیوں کی باغیانہ روش پر گہری دکھ کا اظہار کیا جبکہ دوسری جانب دنیور چوک پر منعقد جلسے میں مجلس وحدت المسلمین نے وزیر اعظم کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
اس قسم کے واقعات علاقے میں ایک بار پھر مسلکی آگ کو ہوا دے سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ہی حکومت نے مساجد کو مسلکی منافرت اور الیکشن سے دور رکھنے کی ہدایت کی تھی مگر لگتا ہے کہ عملی طور پر اس فیصلے پر عمل درامد نہیں ہورہا۔ ہمارے چند دوستوں کا خیال ہے کہ یمن سعودی عرب جنگ کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ہونے والے الیکشن کے نتائج پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ الیکشن کے نتائج پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا جبکہ وہاں مسلکی ’جنگ‘ دوبارہ چھڑ سکتی ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو ایک بار پھر کئی برس پیچھلے دھکیلے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ گلگت بلتستان کے حالات کو خراب کرنے اور فسادات پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ شیخ و ملاّ آلہ کار بنا ہے۔ 
بقول جون ایلیاء
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرےروز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے

No comments:

Post a Comment