Sunday, September 28, 2014

بحث و تکرار (سرسید احمد خان)

جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھلائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے۔ پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں۔ اس کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں۔ اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا۔ نامہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے۔ دوسرا بولتا ہے واہ یوں نہیں یوں ہے۔ وہ کہتا ہے واہ تم کیا جانو۔ وہ بولتا ہے تم کیا جانو۔ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے۔ تیوری چڑھ جاتی ہے۔ رخ بدل جاتا ہے۔ آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتی ہیں۔ باچھیں چر جاتی ہیں۔ دانت نکل پڑتے ہیں۔ تھوک اڑنے لگتا ہے۔ باچھوں تک کف بھر آتے ہیں۔ سانس جلدی چلتا ہے۔ رگیں تن جاتی ہیں۔ آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں۔ آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا، اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں لپّا دکّی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کر کر چھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک اِدھر چلا گیا اور ایک اُدھر اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کمزور نے لپٹ کر کپڑے جھارتے سر سہلاتے اپنی راہ لی۔ جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو کر رہ جاتی ہے تو کہیں تو تکار تک نوبت آ جاتی ہے۔ کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے ہی پر خیر گذر جاتی ہے۔ مگر ان سب میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلافِ رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کو پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہے۔ مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب اور شائستگی، محبت اور دوستی کو ہاتھ سے دینا نہ چاہیے۔ پس اے میرے عزیز ہم وطنو۔ جب تم کسی کے برخلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دو بدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو مگر بناوٹ بھی نہ پائی جاوے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے لفظ استعمال کرو مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا شاید میں غلط سمجھا گو بات تو عجیب ہے مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔ جب دو تین دفعہ بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے کو نہ بدلے تو زیادہ تکرار مت بڑھاؤ۔ یہ کہہ کر کہ میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا، جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کر ختم کرو۔ دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلاؤ کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا کیونکہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور ایسی عزیز چیز (جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ جب کہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملے ہوئے ہیں تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے اور تکرار اور مباحثے کو آنے مت دو۔ کیونکہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو، اس کو ختم کرو۔ اور آپس میں ہنسی خوشی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کر لو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان کی مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment