Monday, January 20, 2014

”امیرِ شہر کے کتّے بھی راج کرتے ہیں“

جنوری کی سرد رات تھی،یخ بستہ ہوائیں جب جسم کو چھوتی تھی تو یوں گماں ہوتا تھا جیسے کسی نے تیز دھار آلے سے جسم پر وار کردیا ہو۔ لوگوں نے موٹی گرم چادریں اور جیکٹیں ژیب تن کی تھیں۔ ڈھول کی تھاپ پر کچھ لڑکے دیوانہ وار رقص کر رہے تھے، برقی قمقموں نے ہر طرف روشنی پھیلادی تھی۔ چند بزرگ افراد اور ادھیڑ عمر کے خواتین و حضرات جھومتے لڑکوں کو تالیاں بجا کر داد دے رہے تھے۔پاس کھڑی لڑکیاں رنگ برنگ کے لباس میں ملبوس ماحول کواور خوبصورت اور دلکش بنا رہی تھی۔یہ ایک شادی ہال کے باہر کا منظر ہے۔ دلہا کے پہنچتے ہی صاف ستھرے سوٹ میں ملبوس ایک جوان گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا جس کے ہاتھ میں روپیوں کی گڈیاں تھی۔وہ مسلسل ”کڑک
نوٹ“ دولہا کے اوپر برسا رہا تھا۔ چند قدم کے فاصلے پردس بارہ سالہ لڑکی ٹکٹکی باندھے حسرت بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ جسم پر واحد پھٹا پرانا اور کافی چھوٹا کرُتا تھا جس سے اس نے اپنا میلا بدن ڈھانپنے کی نا کام کوشش کی تھی۔ اس کی نظریں کبھی ہوا میں اڑتے نوٹوں پر تو کبھی بھاری بھرکم میک اپ میں میں ڈھیر سارے زیور سے آراستہ دلہن کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی۔۔۔ اس کے ساتھ بیٹھا چھوٹا بچہ بنا پلک جھپکائے برابر میں لگے سیخ کباب کی طرف دیکھتا جارہا تھا۔۔۔ اس دوران ٹریفک دوبارہ رواں دواں ہوگئی اور میں آگ بڑھ گیا۔آدھا ایک گھنٹے بعد جب میں واپس لوٹ رہا تھا تو اس جگہ پر ایک اور منظر میرامنتظر تھا،جسے دیکھ کر خود سے اور پوری انسانیت سے نفرت ہونے لگی وہی معصوم بچے اب شادی ہال سے کچھ فاصلے پر موجودکچرے کے ڈھیر پر بیٹھے اس کچرے میں سے چاول نکال کرپیٹ کی آگ بجھارہے تھے۔غالبا ً شادی ہال سے بچا کھانا یہاں پھینک دیا تھا۔ان بچوں کے برابر میں دو کتےّ ایک دوسرے کے ساتھ گتم گتّا تھے مگر بچے دنیا جہاں سے بے خبر پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے۔ ایسے مناظر ہمیں روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔لیکن ہمارا ضمیر اتنا مردہ ہوگیا ہے کہ ایک پل کے لئے بھی انسانوں میں اس تفریق کے بارے میں نہیں سوچتے۔ یہاں کوئی ایک
نوالے کے لے ترستا ہے اور چند لوگوں کے کتےّ بھی راج کرتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے۔
ہر بلاول ہے قوم کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
کاش بلاول اور مریم نوازش بھی یہ منظر دیکھ سکے اس ملک میں، جہاں ان کے باپ دادا، اور دیگر رشتہ دار حکومت کرتے آئے ہیں، میں ایک غریب کیسے جیتا ہے؟لیکن انھیں اس سے کیا غرض!! یہ تو حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں تیس ہزار بے گھر بچے گلیوں میں اپنے شب و روز بِتاتے ہیں۔ اس نظام کے خلاف جنگ ہمیں لڑنی ہے جدوجہد ہمیں کرنی، متحد ہوکر۔۔ اس تفریق کو مٹا کر۔
”آؤ مل کرسمیٹ لیں خود کو
اس سے پہلے کے دیر ہوجائے“

No comments:

Post a Comment