Wednesday, April 4, 2012

۔۔۔۔حیف صد حیف۔۔۔۔

﴿"مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک هے
کم ظرف کے ہاتهوں میں گر جام دیا جاۓ"
کچه روذ قبل ائ- بی- اے کے ہاسٹل جانے کا اتفاق هوا، جاتے وقت بہت ساری اچهی امیدیں لۓ گیا تها لیکن جب داخلی درواذے سے باہر نکل رہا تها تب ''مایوسی'' اور "اقسوس" جیسے الفاظ بهی ساته تهے۔ انتہائ خوشی اس بات پر ہوئ که عرض شمال ﴿گلگت،چترال﴾ سے تعلق رکهنے والے درجنوں طلبا یہاں ذیرتعلیم ہیں، جو شمال کے دوردراذ اور وسائل سے محروم علاقوں سے آکر یہاں کے طالبعلموں کا مقابله کرتے ہیں۔ بہت فخر اور خوشی کی بات ہے۔ ایک مشهور کہاوت ہے "ایک مچهلی سارے تالاب کو گنده کرتی ہے" اسی کہاوت کے مصداق چند ایسے طالب علموں سے بهی واسطه پڑا، جنہیں طالب علم کہناطالب علمی کی بےحرمتی سمجهتا ہوں۔ ان سے مل کر کہیں سے بهی نہیں لگتا ہے که یه اسی شمال کے باسی ہیں جو اخلاقیات اور مہمان نواذی کا پیکر ہیں اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکه پوری دنیا میںان کے اخلاق کی طوطی بولتی ہے۔ نہایت افسوس کی بات یه ہے که ان کی عام بات چیت میں 90 فیصد غلیظ گالیاں شامل ہیں، حتی که کهانا کهانے کے دوران ایسی واہیات باتیں اور انتہائ غلیظ گالیاں دی جارہی تهی که کوئ آن پڑهہ ریڑی والا بهی سن کے شرما جاۓ۔ چترال اور گلگت کے کچه طالب علموں کی انداذ گفتگو دیکه کر یه بات کہنے میں دیر نہیں لگتی که "وه اپنے تمام تر اخلاقیات کراچی کے سمندر میں غرق کر چکے ہیں یا پهر نصاب کی موٹی کتابوں کے نذر کر چکے ہیں "۔ تاریخ گواه ہے که گلگت بلتستان اورچترال کے لوگ اخلاقیات، اداب،شائسته گفتگو اور مہمان نواذی کے ذیور سے اراسته ہوتے ہیں۔ لیکن ۔آئ-بی۔ اے جیسے عظیم درسگاه کے قابل،ذہین اور اعلی تعلیم یافته نوجوان اس ذیور کو اتار پهینک چکے ہیں۔۔حیف صد حیف:﴿ بقول شاعر
"تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا
"میرے مزاج کا اس میں کوئ قصور نہیں

6 comments:

  1. exquisitely narrated but you could have figured out the positive sides too. :)

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. look man!
    you have exaggerated the things to extreme level.
    accept the one as rare incident!....keep calm :)
    and the thing to be noticed; there were some other....................most probably their attitude might have recalled the memories of hospitality of (GB and chitral)
    it is very common in writers--they always flaunt guilty and expose acrimoniousness,but the positive responses do need to be figure out, and i dont want to see the same in you:(
    ReplyDelete

    ReplyDelete
  4. "kahawat ha k "kharboza kharbozy ko dk k rang pakrt ha " yaha gilgt or chitral k akhrot b tarbozey ka rang pakrne ki koshish krte ha likn it z impossible. yaha k institutes ma akr apna tradition or akhlaqiyat bol jate ha
    so ridiculous and so sad !!


    akbar shah yasini

    ReplyDelete
  5. shining dark N Karim
    “Criticism may not be agreeable, but it is necessary. It fulfils the same function as pain in the human body. It calls attention to an unhealthy state of things.”

    ReplyDelete
  6. Akber yeah agreed
    most youngster from north are involved in unhealthy activities, galyan dena to i k liye mamoli baat hogai hy, or ethics ko bhol chuke hain.

    ReplyDelete