Saturday, June 6, 2015

حضرت جون ایلیا



جون ایلیا کا اصل نام سید جون اصغر تھا اور وہ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے جبکہ اردو کے نامور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔ ممتاز ادیبہ اور معروف کالم نگار زاہدہ حنا اُن کی شریک حیات تھیں۔
اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔
جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "شاید" اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ "یعنی" ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان "گمان" 2004ء میں شائع ہوا۔ "لیکن" 2006ء، "گویا" 2008ء اور اس کے علاوہ مختصر مضامین کا مجموعہ ’فرنود‘ 2012ء بھی منظر عام پر آچکا ہے.
جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔
جون ایلیا تراجم، تدوین اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی مشغول رہے۔ لیکن ان کے تراجم اور نثری تحریریں آسانی سے دستیاب نہيں۔
جون ایلیا عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں.
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکيں۔
جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا ایک اپنے انداز کی ترقی پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کر دی۔
جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
جون ایلیا کی زندگی کو معاشرے، روایات، معیارات اور عام ڈگر سے کھلی عداوت و بغاوت سے عبارت کیا جاتا ہے۔ یہی بغاوت جون ایلیا کی شاعری کو دیگر شاعروں سے ممتاز و منفرد بناتی ہے۔ فلسفیانہ شک و سوالات، خدا سے تکرار، معاشرے سے عداوت، خود پر ناراض ہو جانا اور ناراض رہنا، عشق و محبت میں ناکامی و یاس کے ساتھ ساتھ غصہ و بیزاری جیسے عناصر نے جون کو اردو شاعری کے ان مکاتب میں شامل کر دیا، جو ان سے قبل چند ہی شعراء کے حصے میں آ پائے۔
اردو زبان پر جون ایلیا کی گرفت اور شاعری میں انتہائی سادہ الفاظ اور لفظوں کی تکرار سے ایک مشکل مضمون کو بیان کر دینا، بھی جون ایلیا کا ایک خاص وصف رہا ہے

Wednesday, May 27, 2015

علامہ اقبال کے بارے میں حضرت جون ایلیاء کے تاثرات

 ڈاکٹر اقبال کا ہیرو بیک وقت اورنگ زیب بھی ہے اور سرمد بھی۔ ایک ہی شاعر بیک وقت قاتل اور مقتول دونوں کو بلند کردار کہہ رہا ہے۔۔ مسولینی میں عظیم انسان کی کون سی خوبیاں تھیں؟ وہ ڈاکٹر اقبال کا ہیرو کیسے ہوگیا ؟ برٹش امپائر کے شہنشاہ کے سامنے اقبال نے سرِ تسلیم کیسے خم کردیا؟ کیا عظیم شاعر کا یہی کردار ہوتا ہے کہ وہ ہر طبقے کے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے؟ اور شاہین ایک ایسا خونخوار طائر ہے جس میں رحم کا جذبہ ہرگز نہیں ہوتا۔ کیا اقبال نے شاہین کو علامت بنا کر انسان کو خونخوار بننے کی تعلیم نہیں دی ؟؟

Wednesday, May 6, 2015

کھول دو..... سعادت حسن منٹو


امر تسر سے اسپيشل ٹرين دوپہر دو بجے کو چلي آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچي، راستے ميں کئي آدمي مارے گئے، متعد زخمي اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے ۔۔۔۔کيمپ کي ٹھنڈي زمين پرجب سراج الدين نے آنکھيں کھوليں، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ايک متلاطم سمندر ديکھا تو اس کي سوچنے کي قوتيں اور بھي ضعيف ہوگئيں، وہ دير تک گدلے آسمان کو ٹکٹکي باندھے ديکھتا رہا، يو تو کيمپ ميں ہر طرف شور برپا تھا، ليکن بوڑھے سراج الدين کے کان جيسے بند تھے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا تھا، کوئي اسے ديکھتا تو يہ خيال کرتا تھا، کہ وہ کسي گہري فکر ميں غرق ہے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا ہے، اس کے حوش و حواس شل تھے، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کي طرف بغير کسي ارادے کے ديکھتے ديکھتے سراج الدين کي نگاہيں سورج سے ٹکرائيں، تيز روشني اس کے وجود کے رگ و ريشے ميں اتر گئي اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئي تصويريں دوڑ گئيں، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولياں۔۔۔۔رات اور سکينہ۔۔۔سراج الدين ايک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کي طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھليے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کيا۔ پورے تين گھنٹے وہ سکينہ سکينہ پکارتا کيمپ کي خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپني جوان اکلوتي بيٹي کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ايک دھاندلي سي مچي ہوئي تھي، کوئي اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئي ماں، کوئي بيوي اور کوئي بيٹي، سراج الدين تھک ہار کر ايک طرف بيٹھ گيا، اور حافظے پر زور دينے لگا، کہ سکينہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئي تھي ليکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکينہ کي ماں کي لاش پر جا کر جم جاتا ہے، جس کي ساري انتڑياں باہر نکلي ہوئي تھيں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔
سکينہ کي ماں مر چکي تھي، اس نے سراج الدين کي آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، ليکن سکينہ کہاں تھي، جس کے متعلق اس کي ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکينہ کو لے کر جلدي يہاں سے بھاگ جاؤ۔
سکينہ اس کے ساتھي ہي تھي، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے، سکينہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کيلئے سراج الدين نے رکنا چاہا مگر سکينہ نے چلا کر کہا ابا جي ۔۔۔۔۔چھوڑئيے، ليکن اس نے دوپٹہ اٹھا ليا تھا۔۔۔يہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کي بھري ہوئي جيب کي طرف ديکھا اور ميں ہاتھ ڈال کر ايک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکينہ کا وہي دوپٹا تھا۔۔۔۔ليکن سکينہ کہاں تھي؟
سراج الدين نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور ديا مگر وہ کسي نتيجہ پر نہ پہنچ سکا، کيا وہ سکينہ کو اپنے ساتھ اسٹيشن لے آيا تھا؟۔۔۔۔کيا وہ اس کے ساتھ ہي گاڑي ميں سوار تھي؟۔۔۔ راستہ ميں جب گاڑي روکي گئي تھي اور بلوائي اندر گھس آئے تھے تو کيا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکينہ کو اٹھا کر لئے گئے؟
سراج الدين کے دماغ ميں سوال ہي سوال تھے، جواب کوئي بھي نہيں تھا، اس کو ہمدردي کي ضرورت تھي، ليکن چاروں طرف جتنے بھي انسان پھيلے ہوئے تھے، سب کو ہمدردي کي ضرورت تھي، سراج الدين نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کي مدد نہ کي، آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسي قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کي مدد کرنے کيلئے تيار تھے، آٹھ نوجوان تھے، جن کے پاس لاري تھي، بندوقيں تھيں، سراج الدين نے ان کو لاکھ لاکھ دعائيں ديں اور سکينہ کا حليہ بتايا، گورا رنگ ہے، بہت ہي خوبصورت ہے ۔۔۔۔مجھ پر نہيں اپني ماں پر تھي۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قريب اکلوتي لڑکي ہے، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔
رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدين کو يقين دلايا کہ اگر اس کي بيٹي زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں اس کے پاس ہوگي۔
آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کي، جان ہتھيلي پر رکھ کر وہ امر تسر گئے، کئي عورتوں کئ مردوں اور کئي بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچايا، دس روز گزر گئے مگر انہيں سکينہ نہ ملي۔
ايک روز وہ اسي خدمت کيلئے لاري پر امر تسر جا رہے تھے، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہيں ايک لڑکي دکھائي دي، لاري کي آواز سن کر وہ بدکي اور بھاگنا شروع کرديا، رضاکاروں نے موٹر روکي اور سب کے سب اس کے پيچھے بھاگے، ايک کھيت ميں انہوں نے لڑکي کو پکڑ ليا، ديکھا تو بہت ہي خوبصورت تھي، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ايک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہيں۔۔۔۔۔۔کيا تمہارا نام سکينہ ہے؟
لڑکي کا رنگ اور بھي زرد ہوگيا، اس نے کوئي جواب نہ ديا، ليکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم سلاسہ ديا تو اسکي وحشت دور ہوئي اس نے مان ليا کہ وہ سراج الدين کي بيٹي سکينہ ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکينہ کي دل جوئي کي، اسے کھانا کھلايا، دودھ پلايا، اور لاري ميں بيٹھا ديا، ايک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے ديا، کيونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہي تھي، اور بار بار بانہوں سے اپنے سينے کو ڈھانکنے کي ناکام کوشش ميں مصروف تھي۔ کئي دن گزر گئے ۔۔۔۔۔۔۔سراج الدين کو سکينہ کي کوئي خبر نہ ملي، وہ دن بھر مختلف کميپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، ليکن کہيں سے بھي اسکي بيٹي سکينہ کا پتہ نہ چلا سکا، رات کو وہ بہت دير تک ان رضاکر نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعائيں مانگتا رہا، جنہوں نے اسکو يقين دلايا تھا کہ اگر سکينہ زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں وہ اسے ڈھونڈ نکاليں گے۔
ايک روز سراج الدين نے کيمپ ميں ان نوجوان رضا کاروں کو ديکھا، لاري ميں بيٹھے تھے، سراج الدين بھاگا بھاگا ان کے پاس گيا، لاري چلنے والي تھي کہ اس نے پوچھا بيٹا ميري سکينہ کا پتہ چلا؟
سب نے يک زبان ہو کر کہا چلا جائے گا، چل جائے گا اور لاري چلادي۔
سراج الدين نے ايک بار پھر ان نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعا مانگي اور اس کا جي کس قدر ہلکا ہوگيا، شام کے قريب کيمپ ميں جہاں سراج الدين بيٹھا تھا، اس کے پاس ہي کچھ گر بڑ سي ہوئي چار آدمي کچھ اٹھا کر لارہے تھے، اس نے دريافت کيا تو معلوم ہو کہ ايک لڑکي ريلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑي تھي، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہيں، سراج الدين ان کے پيچھے پيچھے ہوليا، لوگوں نے لڑکي کو اسپتال والوں کے سپرد کيا اور چلے گئے۔
کچھ دير بعد ايسے ہي اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑي کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گيا، کمرے ميں کوئي نہيں تھا، ايک اسٹيريچر تھا، جس پر ايک لاش پڑي تھي، سراج الدين چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کي طرف بڑھا، کمرے ميں دفعتا روشني ہوئي سراج الدين نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل ديکھا اور چلايا، سکينہ۔
ڈاکٹر نے جس نے کمرے ميں روشني کي تھي، سراج الدين سے پوچھا کيا ہے؟
سراج الدين کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا،جي ميں ۔۔۔۔۔ جي ميں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔
ڈاکٹر نے اسٹريچر پر پڑي ہوئي لاش کي طرف ديکھا، اس کي نبض ٹٹولي اور سراج الدين سے کہا کھڑکي کھول دو۔
سکينہ کے مردہ جسم ميں جنبش پيدا ہوئي ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نيچے سرکا ديا، بوڑھا سراج الدين خوشي سے چلايا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔ميري بيٹی زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پير تک پسينے ميں غرق ہوگيا۔

Sunday, April 12, 2015

مشرق وسطیٰ کے حالات اورگلگت بلتستان

جس طرح کسی حکمران کے چند اچھے اقدامات سے ملک ترقی کے منازل بحسن خوبی طے کرتا ہے بالکل اسی طرح ان کے ایک غلط فیصلے سے نہ صرف پورے ملک کے عوام متاثرہوتے ہیں بلکہ اس کے اثرات خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات پر مرتب ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے جاری ہونے والے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کی سر براہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں سعودی عرب اور یمن کے درمیان جاری صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور یہ اعلان جاری کر دیا ہے کہ پاکستان سعودی سالمیت کے خطرے پر بھر پور ساتھ دیگا۔ یاد رہے کہ اس اہم اجلاس میں بری اور فضائیہ کے سربراہان نے بھی شرکت کی ۔
اس فیصلے بعد ملک کے چند شہروں میں مذہبی اور سیاسی مذہبی جماعتوں نے اس فیصلے کے حق میں اور مخالفت میں احتجاجی مظاہرے کئے اور شدید رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ملک پہلے سے ہی مسلکی منافرت کی آگ کے لپیٹ میں ہے اور یہ فیصلہ اس آگ کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔ اس کی تازہ مثال کراچی اور لاہور میں ہونے والے مظاہرے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں جماعت الدعوہ نے احتجاجی ریلی نکالی جس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید نے حکومت کے اس فیصلے کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ شرکاء ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری مسلم امہ کو اپنے ملک سے زیادہ حرمین الشریف کی فکر کرنی چاہیئے اور سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہئے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ یمن کے باغی امریکہ اور اسرائیل کی اشرواد سے بغاوت کر رہے ہیں۔ 
دوسری جانب کراچی میں مجلس وحدت المسلین نے نہ صرف حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت میں ریلی نکالی بلکہ یمن میں جاری جنگ کو عوامی انقلاب قرار دیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علی انور نے کہا کہ ’سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں اپنی لگائی آگ میں خود جل رہا ہے۔‘ سنی تحریک نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود نوازحکومت کاسعودی عرب کی حمایت کا فیصلہ جلاوطنی کے دور کی ’’میزبانی‘‘ کا انعام ہے اور یہ بات تو بالکل ہی واضح ہے کہ نواز شریف کا جھکاؤ سعودی عرب کی جانب بہت زیادہ ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پاکستان ان دنوں کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ فوج اپریشن ضرب عضب طالبان سے لڑ رہی ہے اور ملک بھر میں ہونے والے خودکش حملے سیکیوریٹی کے لیے چیلنج بن گئے ہیں ۔ سانحہء پشاور اورکراچی میں سکولوں کو ملنے والی دھمکیوں نے صورت حال کو مزید تشویش ناک بنادیا ہے۔ 
حکومت پاکستان کو اس طرح کے نازک موقع پر پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چایئے۔ میاں نواز شریف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ایسے کسی بھی فیصلے کی وجہ سے پاک ایران تعلقات پہلے جیسے نہیں رہیں گے کیونکہ ایران یمن کے الحوثیوں کی حمایت کرتا ہے۔ حکومت کو حزب اختلاف کی اس بات پر غور کرنی چاہئے کہ یہ پرائی جنگ ہے اور پاکستان پہلے ہی پرائی جنگوں میں بہت کچھ کھو چکا ہے۔ حکومت پہلے اپنے ملک کی سالمیت کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لینا چاہئے اور درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔
حالات اور واقعات کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس جنگ کے اثرات گلگت بلتستان پر بھی ہونگے۔ گلگت میں منعقد ہونے والے دو مختلف اجلاس میں مذہبی سیاسی جماعت وحدت المسلمین اور تنظیم اہلسنت کے مقریرین کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سال مذہبی منافرت مٹانے کا شیخ و ملا کا وعدہ صرف وعدہ ہی تھا۔ ایک خبر کے مطابق اہلسنت والجماعت کے امیر قاضی نثار احمد کی صدارت میں جامعہ مسجد گلگت میں منعقد ہوا جس میں جماعت کے مرکزی عہدہ دران نے شرکت کی۔ جس میں الحوثیوں کی باغیانہ روش پر گہری دکھ کا اظہار کیا جبکہ دوسری جانب دنیور چوک پر منعقد جلسے میں مجلس وحدت المسلمین نے وزیر اعظم کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
اس قسم کے واقعات علاقے میں ایک بار پھر مسلکی آگ کو ہوا دے سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ہی حکومت نے مساجد کو مسلکی منافرت اور الیکشن سے دور رکھنے کی ہدایت کی تھی مگر لگتا ہے کہ عملی طور پر اس فیصلے پر عمل درامد نہیں ہورہا۔ ہمارے چند دوستوں کا خیال ہے کہ یمن سعودی عرب جنگ کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ہونے والے الیکشن کے نتائج پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ الیکشن کے نتائج پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا جبکہ وہاں مسلکی ’جنگ‘ دوبارہ چھڑ سکتی ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو ایک بار پھر کئی برس پیچھلے دھکیلے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ گلگت بلتستان کے حالات کو خراب کرنے اور فسادات پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ شیخ و ملاّ آلہ کار بنا ہے۔ 
بقول جون ایلیاء
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرےروز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے

Monday, March 23, 2015

بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی

23 مارچ کا دن برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے کئی حوالوں سے مشہور ہے۔ تاہم اس دن سے وابستہ ایک اہم تاریخی واقعے کو حکمران طبقے کے تاریخ دان دانستہ طور پر چھپاتے یا مسخ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہندوستان اور پاکستان، دونوں ریاستوں کے سرکاری تاریخ دانوں کا کردار ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ 23 مارچ ’’ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن‘‘ (HSRA) کے پرچم تلے برطانوی سامراج اور اس کے استحصالی سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے 23 سالہ انقلابی نوجوان بھگت سنگھ اور اس کے جرات مند ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کی شہادت کا دن ہے۔ علم بغاوت بلند کرنے والے ان تینوں انقلابیوں کو برطانوی سامراج نے 23 مارچ 1931ء کی تاریک رات میں لاہور جیل کے پھانسی گھاٹ کے تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ 
آج ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) سے وابستہ نوجوانوں کی جدوجہد کو پاکستان اور بھارت کا کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑے اپنے اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے تحت مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کا مذہبی دایاں بازو بھگت سنگھ کو کافر اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتا ہے۔ بھگت سنگھ کے حقیقی نظریات کو بگاڑنے کے لئے اس کے سکھ پس منظر کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ دائیں بازو کے سیاست دان تحریک آزادی میں بھگت سنگھ کے کردار کو اس لئے بھی مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس کی جدوجہد اور نظریات آج بھی برصغیر کے محنت کش عوام کو اس غیر انسانی استحصالی نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوکر لڑنے کا پیغام دیتے ہیں۔ سیاسی دایاں بازو اور مذہبی بنیاد پرست اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے حمایتی اور خیر خواہ ہیں۔ HSRA کے انقلابیوں نے برطانوی راج کی برصغیر پر براہ راست حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس سامراجی نظام کے خلاف بھی جدوجہد کا پیغام دیا تھا جو ’’آزادی‘‘ کی چھ دہائیوں بعد بھی سرحد کے دونوں اطراف عوام کو معاشی غلامی اور استحصال کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ وہ جرم ہے جسے سامراجی آقا اور ان کے مقامی دلال کبھی معاف نہیں کرسکتے۔ 
بھارتی حکمران طبقے کی جانب سے بھگت سنگھ کی بالواسطہ کردار کشی یہاں کی نسبت زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ کچھ مہینے پہلے درندہ صفت ہندو بنیاد پرست اور بھارتی سرمایہ داروں کے محبوب سیاستدان نریندرامودی کو بھگت سنگھ کی آپ بیتیوں پر مبنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کی سات دہائیوں بعد بھی بھگت سنگھ نوجوانوں میں مقبول ہے اور دایاں بازو اسی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ دائیں بازو کی طرح کانگریس اور اصلاح پسند بایاں بازو بھی ’’تبدیلی‘‘ کی لفاظی اور سیاسی شعبدے بازی کے لئے بھگت سنگھ کے نام کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے مختلف حصوں کی یہ بیہودہ چالبازیاں بھگت کے حقیقی نظریاتی ارتقا پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہیں۔ موت کے وقت وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس نظریاتی نچوڑ اور نتیجے پر چٹان کی طرح قائم تھا کہ برصغیر کے عوام کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ 
اپنی تحریروں میں بھگت سنگھ واضح طور پر طبقاتی مصالحت اور موقع پرستی کو مسترد کرتا ہے۔ ’’انقلابی پرگرام کا بنیادی خاکہ: نوجوان سیاسی کارکنان کے نام ایک خط‘‘ میں وہ واضح طور پر لکھتا ہے کہ ’’آپ لوگ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس نعرے کا مطلب کیا ہے۔ ہماری تعریف کے مطابق انقلاب کا مطلب اس سماجی نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہے۔ ۔ ۔ اگر آپ کسانوں اور مزدوروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ جان لیجیے کہ وہ جذباتی باتوں سے بیوقوف بننے والے نہیں۔ وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ : جس انقلاب کے لئے آپ ان سے قربانی مانگ رہے ہیں وہ انہیں کیا دے سکتا ہے؟ آپ کو انہیں یقین دلانا پڑے گاکہ انقلاب ان کا ہے اور انہی کے فائدے کے لئے ہے۔ پرولتاریہ کے لئے پرولتاری انقلاب۔ ۔ ۔ اگر لارڈ ریڈنگ کی جگہ سر پرشوتم داس ٹھاکر حکومت کا نمائندہ بن جائے تو عوام کی زندگیوں میں کیا فرق پڑے گا؟ اگر لارڈ ارون کی جگہ سر تیج بہادر سپارو لے لے تو ایک کسان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی؟ قوم پرست سراسر ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ آپ کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔‘‘ (2 فروری 1931ء) 
بھگت سنگھ اخباری مضامین اور سیاسی اشتہاروں میں مہاتما گاندھی کی عیاری اور جھوٹ کو بھی بے نقاب کرتا ہے: ’’وہ (گاندھی) اچھی طرح جانتا تھا یہ تحریک کسی نہ کسی طرح مصالحت پر ہی منتج ہوگی۔ ہمیں سیاسی ذمہ داری کے اس فقدان سے نفرت ہے۔ ‘‘کانگریس کے بارے میں وہ لکھتا ہے: ’’کانگریس کا مقصد کیا ہے؟ میں نے پہلے کہا ہے کہ موجودہ تحریک کسی مصالحت یا مکمل ناکامی پر ختم ہوگی۔ میں نے ایسا اس لئے کہا تھا کہ حقیقی انقلابی قوتوں کو تحریک میں شامل ہونے کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اس تحریک کی بنیاد چند ایک مڈل کلاس دکاندار اور کچھ سرمایہ دار ہیں۔ یہ دونوں طبقات اپنی جائیداد کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ انقلاب کی حقیقی افواج دیہاتوں اور فیکٹریوں کے کسان اور مزدور ہیں۔ یہ سوتے ہوئے شیراگر جاگ گئے تو ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فوری مقصد پورا ہونے کے بعد بھی رکیں گے نہیں۔ ‘‘بھگت سنگھ کے یہ الفاظ اس وقت سو فیصد درست ثابت ہوئے جب بمبئی میں کپڑے کی صنعت کے محنت کشوں کی جرات مندانہ تحریک کے بعد گاندھی نے انقلاب کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’’سیاسی مقاصد کے لئے پرولتاریہ (مزدوروں) کا استعمال بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ ‘‘یہ ایک بیان گاندھی جیسے مقامی حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں کی برصغیر کے محنت کش طبقے سے نفرت اور خوف کی خوب 
غمازی کرتا ہے۔ 
یہ درست ہے کہ ایک وقت میں بھگت سنگھ ’’غدر تحریک‘‘ سے بہت متاثر تھا اور کرتار سنگھ سرابھا کو اپنا ہیرو سمجھتا تھا۔ غدر تحریک کے اندرونی حالات پر مبنی سچندرا ناتھ سنیال کی کتاب ’’بندی جیون‘‘ کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی لاہور کے نیشنل سکول میں طالب علمی کے عہد میں پڑھتے تھے۔ یہ نوجوان غدر تحریک پر 1918ء میں برطانوی حکومت کی ’’رولٹ کمیٹی‘‘ کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ پر بھی تبصرے کرتے تھے۔ بھگت سنگھ غدر پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں سے ذاتی طور پر ملا بھی تھا۔ غدر پارٹی کا سیکولر نظریہ بھگت سنگھ کی نظر میں مذہبی اورصوفیانہ طرز فکر سے بہتر تھا۔ تاہم بعد ازاں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے غدر تحریک کی ناکامی کے پیچھے کارفرما سیاسی اور نظریاتی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے نیا لائحہ عمل مرتب کیا۔ ستمبر 1928ء میں ’’ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن ‘‘ کے نام میں ’’سوشلسٹ‘‘ کا اضافہ بنیادی نظریاتی تبدیلی کا اظہار تھا۔ ایسوسی ایشن کے کانپور میں ہونے والے اجلاس میں بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارا بنیادی فریضہ عوام سے جڑنا اور انہیں منظم کرنا ہے۔‘‘
پنجاب سٹوڈنٹ کانفرنس کے نام بھگت سنگھ اور بی کے دت کا پیغام انتہائی اہم ہے۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ہم نوجوانوں کو پستول اور بم چلانے کا نہیں کہہ سکتے۔ نوجوانوں کو دیہاتوں اور صنعتی مراکز کی جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو بیدار کرنے کا تاریخی فریضہ سرانجام دینا ہے۔‘‘ 2 فروری 1931ء کے خط میں ہی بھگت سنگھ لکھتا ہے کہ ’’میں نے اپنے سابقہ نظریات اور عقائد کا ازسر نو جائزہ لے کر کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ پرتشدد طریقوں کے رومانس کی جگہ اب سنجیدہ نظریات نے لے لی ہے۔ تصوف اور اندھے یقین کو ختم کرنا ہوگا۔ انقلابی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوشلسٹ سماج انسانی نجات کی واحد ضمانت ہے۔‘‘
اس نام نہاد آزادی کے 67 سال بعد برصغیر میں آباد نسل انسانی کے بیس فیصد حصے کی حالت 1947ء سے بھی بدتر ہے۔ اس ذلت اور محرومی سے رہائی کا راستہ بھگت سنگھ اور اس کے کامریڈ بہت پہلے ہی دکھا چکے ہیں!


[تحریر: لال خان]


(بشکریہ طبقاتی جدوجہد)

Saturday, March 7, 2015

اوور کوٹ۔۔۔۔غلام عباس

جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیئرنگ کراس کا رُخ کر کے
خراماں خراماں پٹڑی پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں، گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں، بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی وہ مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھرپور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھات کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی۔ مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر نہیں معلوم ہوتا تھا اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز تیز قدم اٹھا رہے تھے، اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔ اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے، مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی، مگر اس نے ”نو تھینک یو“ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔ جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ بارونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی ہی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی۔ گویا کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے۔ راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی، مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رُخ نہ کیا اور سیدھا چیئرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔ ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت پیدا ہو گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کے بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرتا تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک اس کی پرواہ کیے بغیر کھیل میں مصروف رہے، مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔ نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بینچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس کی یہ شدت ناخوشگوار نہ تھی، بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا، وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے، تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں۔ حصول لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسب توفیق ریسٹورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محفوظ ہو رہے تھے۔ مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹڑی پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریح طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔ نوجوان سیمنٹ کی بینچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبہ اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو، زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے، ہر قسم کے اوور کوٹ قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خاکی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جنہیں نیلام میں خریدا گیا تھا۔ نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا، مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا، پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ بانہوں کی کریزیں بڑی نمایاں، سلوٹ کہیں نام کو نہیں، بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔ ایک لڑکا پان بیڑی سگرٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا تو نوجوان نے آواز دی۔ ”پان والا“ ”جناب“ ”دس کا چینج ہے؟“ ”ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟“ ”نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟“ ”اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلیے۔ لیں گے کیا آپ؟“ ”نہیں نہیں ہم خود چینج لائیں گے۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ“۔ لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے مصفا دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک چھوٹی سی سفید رنگ کی بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بینچ کے نیچے اس کے قدموں کے پاس آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بینچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا ”پیور لِٹل سول!“ اس کے بعد وہ بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ سینما کے برآمدے میں بھیڑنہ تھی، صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔ تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں، ایک خاص شان استغنا کے ساتھ، مگر صنف نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اچانک ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہرنکل آیا۔ اب7 بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹڑی پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریسٹوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لیے کھڑے تھے، کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے، کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے، کیونکہ وہ غل غپاڑا نہیں مچا رہے تھے، بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لیے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلاتکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگ دار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی، پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ایک ہسپانوی گٹار، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، پر ناقدانہ نظر ڈالی، اور اس کے ساتھ قیمت کا جوٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پرزوں کو ٹٹولا اور پھر کوربند کردیا۔ دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔ ”گڈا یوننگ سر۔ کوئی خدمت؟“ ” نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گرامو فون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے“۔ فہرست لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کردیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک سٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا اور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے، جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا، نے گرم جوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔ ”ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟“ ”چودہ سو بتیس روپے“۔ نوجوان نے اپنی بھنوؤں کو سکیٹرا، جس کا مطلب تھا ”اوہو اتنی“۔ دکاندار نے کہا ”آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کرسکتے ہیں کردیں گے“۔ ”شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں“۔ ”شوق سے دیکھیے۔ آپ ہی کی دکان ہے“۔ وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹرگشت شروع کردی۔ اب وہ ہائیکورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزررہاتھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی طبیعت کی چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا تھا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹڑی پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور ان میں کافی فاصلہ رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی۔ مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی ”او سوری“ کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔ نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹرگشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسامست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکاری ہی نہ تھا۔ مگر اس دلچسپ جوڑے نے، جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حددرجہ مشتاق بنادیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہوسکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔ اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاک خانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھرکورکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلوڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہوجائے کہ ان کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ اس لیے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہیے۔ جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا۔ مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہوگی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لیے گاڑی کی رفتار کم کی۔ وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ وہ تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے نمبر دیکھو۔ مگر لاری ہوا ہوچکی تھی۔ اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہوگئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹرسائیکل پر جارہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچل گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔ فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کے بڑے ہسپتال روانہ کردیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبہ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دونو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے ازراہ درد مندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑانہ لے جائے۔ شہناز نے گل سے کہا” کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ“۔ گل دبی آواز میں بولی۔” خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے“۔ ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟“ ”نہیں بھاگ گیا۔“ ”کتنے افسوس کی بات ہے“۔ آپریشن روم میں اسٹنٹ سرجن اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپارکھا تھا۔ اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مرمر کی میز پر لٹادیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبودار تیل ڈال رکھا تھا۔ اس کی کچھ کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سر کی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔ اب اس کے کپڑے اتارے جارہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک کا گلو بند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔ نوجوان کے گلو بند کے نیچے نکٹائی اور کالر، کیا سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بہت بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جابجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سویٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آرہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپارہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سویٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے اک پرانی دھجی سے جوشاید کبھی نکٹائی ہوگی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھنٹوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا۔ اور کئی جگہ کھونچیں بھی لگی تھیں۔ مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لیے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گل کی آنکھیں چار ہوئیں۔ بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے۔ مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں۔ اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آرہی تھیں۔بلاشبہ اس وقت تک وہ دم توڑچکا تھا۔ اسی کا جسم سنگ مرمر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی اس برہنگی نے اسے خجل کردیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرارہا ہے۔ اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں۔ ایک چھوٹا ساسیاہ کنگھا، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا آدھا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں لوگوں کے نام اور پتے لکھے تھے، نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹرگشت کے دوران میں اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھمادیئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال لیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھوگئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔

Thursday, March 5, 2015

دین ، دھرم ، اسلام تمہارا


دین ، دھرم ، اسلام تمہارا
ہم کو جینے دو خدارا
ہم نہ خون بہانا جانیں
نہ بندوق چلانا جانیں
اپنی سوچ اور اپنا عقیدہ
زور سے نہ منوانا جانیں
ہم اللہ کے جاہل بندے
تو اللہ کا راج دلارا
ہم کو جینے دو خدا را
حور کی لذت تجھے مبارک
دودھ اور شربت تجھے مبارک
ہم دوزخ کی آگ ہی لیں گے
ساری جنت تجھے مبارک
جنت ہم کو نہیں گوارا
ہم کو جینے دو خدارا
دین ، دھرم ، اسلام تمہارا
ہم کو جینے دو خدارا

(ضمیر)