Monday, March 23, 2015

بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی

23 مارچ کا دن برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے کئی حوالوں سے مشہور ہے۔ تاہم اس دن سے وابستہ ایک اہم تاریخی واقعے کو حکمران طبقے کے تاریخ دان دانستہ طور پر چھپاتے یا مسخ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہندوستان اور پاکستان، دونوں ریاستوں کے سرکاری تاریخ دانوں کا کردار ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ 23 مارچ ’’ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن‘‘ (HSRA) کے پرچم تلے برطانوی سامراج اور اس کے استحصالی سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے 23 سالہ انقلابی نوجوان بھگت سنگھ اور اس کے جرات مند ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کی شہادت کا دن ہے۔ علم بغاوت بلند کرنے والے ان تینوں انقلابیوں کو برطانوی سامراج نے 23 مارچ 1931ء کی تاریک رات میں لاہور جیل کے پھانسی گھاٹ کے تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ 
آج ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) سے وابستہ نوجوانوں کی جدوجہد کو پاکستان اور بھارت کا کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑے اپنے اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے تحت مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کا مذہبی دایاں بازو بھگت سنگھ کو کافر اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتا ہے۔ بھگت سنگھ کے حقیقی نظریات کو بگاڑنے کے لئے اس کے سکھ پس منظر کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ دائیں بازو کے سیاست دان تحریک آزادی میں بھگت سنگھ کے کردار کو اس لئے بھی مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس کی جدوجہد اور نظریات آج بھی برصغیر کے محنت کش عوام کو اس غیر انسانی استحصالی نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوکر لڑنے کا پیغام دیتے ہیں۔ سیاسی دایاں بازو اور مذہبی بنیاد پرست اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے حمایتی اور خیر خواہ ہیں۔ HSRA کے انقلابیوں نے برطانوی راج کی برصغیر پر براہ راست حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس سامراجی نظام کے خلاف بھی جدوجہد کا پیغام دیا تھا جو ’’آزادی‘‘ کی چھ دہائیوں بعد بھی سرحد کے دونوں اطراف عوام کو معاشی غلامی اور استحصال کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ وہ جرم ہے جسے سامراجی آقا اور ان کے مقامی دلال کبھی معاف نہیں کرسکتے۔ 
بھارتی حکمران طبقے کی جانب سے بھگت سنگھ کی بالواسطہ کردار کشی یہاں کی نسبت زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ کچھ مہینے پہلے درندہ صفت ہندو بنیاد پرست اور بھارتی سرمایہ داروں کے محبوب سیاستدان نریندرامودی کو بھگت سنگھ کی آپ بیتیوں پر مبنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کی سات دہائیوں بعد بھی بھگت سنگھ نوجوانوں میں مقبول ہے اور دایاں بازو اسی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ دائیں بازو کی طرح کانگریس اور اصلاح پسند بایاں بازو بھی ’’تبدیلی‘‘ کی لفاظی اور سیاسی شعبدے بازی کے لئے بھگت سنگھ کے نام کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے مختلف حصوں کی یہ بیہودہ چالبازیاں بھگت کے حقیقی نظریاتی ارتقا پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہیں۔ موت کے وقت وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس نظریاتی نچوڑ اور نتیجے پر چٹان کی طرح قائم تھا کہ برصغیر کے عوام کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ 
اپنی تحریروں میں بھگت سنگھ واضح طور پر طبقاتی مصالحت اور موقع پرستی کو مسترد کرتا ہے۔ ’’انقلابی پرگرام کا بنیادی خاکہ: نوجوان سیاسی کارکنان کے نام ایک خط‘‘ میں وہ واضح طور پر لکھتا ہے کہ ’’آپ لوگ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس نعرے کا مطلب کیا ہے۔ ہماری تعریف کے مطابق انقلاب کا مطلب اس سماجی نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہے۔ ۔ ۔ اگر آپ کسانوں اور مزدوروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ جان لیجیے کہ وہ جذباتی باتوں سے بیوقوف بننے والے نہیں۔ وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ : جس انقلاب کے لئے آپ ان سے قربانی مانگ رہے ہیں وہ انہیں کیا دے سکتا ہے؟ آپ کو انہیں یقین دلانا پڑے گاکہ انقلاب ان کا ہے اور انہی کے فائدے کے لئے ہے۔ پرولتاریہ کے لئے پرولتاری انقلاب۔ ۔ ۔ اگر لارڈ ریڈنگ کی جگہ سر پرشوتم داس ٹھاکر حکومت کا نمائندہ بن جائے تو عوام کی زندگیوں میں کیا فرق پڑے گا؟ اگر لارڈ ارون کی جگہ سر تیج بہادر سپارو لے لے تو ایک کسان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی؟ قوم پرست سراسر ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ آپ کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔‘‘ (2 فروری 1931ء) 
بھگت سنگھ اخباری مضامین اور سیاسی اشتہاروں میں مہاتما گاندھی کی عیاری اور جھوٹ کو بھی بے نقاب کرتا ہے: ’’وہ (گاندھی) اچھی طرح جانتا تھا یہ تحریک کسی نہ کسی طرح مصالحت پر ہی منتج ہوگی۔ ہمیں سیاسی ذمہ داری کے اس فقدان سے نفرت ہے۔ ‘‘کانگریس کے بارے میں وہ لکھتا ہے: ’’کانگریس کا مقصد کیا ہے؟ میں نے پہلے کہا ہے کہ موجودہ تحریک کسی مصالحت یا مکمل ناکامی پر ختم ہوگی۔ میں نے ایسا اس لئے کہا تھا کہ حقیقی انقلابی قوتوں کو تحریک میں شامل ہونے کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اس تحریک کی بنیاد چند ایک مڈل کلاس دکاندار اور کچھ سرمایہ دار ہیں۔ یہ دونوں طبقات اپنی جائیداد کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ انقلاب کی حقیقی افواج دیہاتوں اور فیکٹریوں کے کسان اور مزدور ہیں۔ یہ سوتے ہوئے شیراگر جاگ گئے تو ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فوری مقصد پورا ہونے کے بعد بھی رکیں گے نہیں۔ ‘‘بھگت سنگھ کے یہ الفاظ اس وقت سو فیصد درست ثابت ہوئے جب بمبئی میں کپڑے کی صنعت کے محنت کشوں کی جرات مندانہ تحریک کے بعد گاندھی نے انقلاب کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’’سیاسی مقاصد کے لئے پرولتاریہ (مزدوروں) کا استعمال بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ ‘‘یہ ایک بیان گاندھی جیسے مقامی حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں کی برصغیر کے محنت کش طبقے سے نفرت اور خوف کی خوب 
غمازی کرتا ہے۔ 
یہ درست ہے کہ ایک وقت میں بھگت سنگھ ’’غدر تحریک‘‘ سے بہت متاثر تھا اور کرتار سنگھ سرابھا کو اپنا ہیرو سمجھتا تھا۔ غدر تحریک کے اندرونی حالات پر مبنی سچندرا ناتھ سنیال کی کتاب ’’بندی جیون‘‘ کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی لاہور کے نیشنل سکول میں طالب علمی کے عہد میں پڑھتے تھے۔ یہ نوجوان غدر تحریک پر 1918ء میں برطانوی حکومت کی ’’رولٹ کمیٹی‘‘ کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ پر بھی تبصرے کرتے تھے۔ بھگت سنگھ غدر پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں سے ذاتی طور پر ملا بھی تھا۔ غدر پارٹی کا سیکولر نظریہ بھگت سنگھ کی نظر میں مذہبی اورصوفیانہ طرز فکر سے بہتر تھا۔ تاہم بعد ازاں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے غدر تحریک کی ناکامی کے پیچھے کارفرما سیاسی اور نظریاتی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے نیا لائحہ عمل مرتب کیا۔ ستمبر 1928ء میں ’’ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن ‘‘ کے نام میں ’’سوشلسٹ‘‘ کا اضافہ بنیادی نظریاتی تبدیلی کا اظہار تھا۔ ایسوسی ایشن کے کانپور میں ہونے والے اجلاس میں بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارا بنیادی فریضہ عوام سے جڑنا اور انہیں منظم کرنا ہے۔‘‘
پنجاب سٹوڈنٹ کانفرنس کے نام بھگت سنگھ اور بی کے دت کا پیغام انتہائی اہم ہے۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ہم نوجوانوں کو پستول اور بم چلانے کا نہیں کہہ سکتے۔ نوجوانوں کو دیہاتوں اور صنعتی مراکز کی جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو بیدار کرنے کا تاریخی فریضہ سرانجام دینا ہے۔‘‘ 2 فروری 1931ء کے خط میں ہی بھگت سنگھ لکھتا ہے کہ ’’میں نے اپنے سابقہ نظریات اور عقائد کا ازسر نو جائزہ لے کر کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ پرتشدد طریقوں کے رومانس کی جگہ اب سنجیدہ نظریات نے لے لی ہے۔ تصوف اور اندھے یقین کو ختم کرنا ہوگا۔ انقلابی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوشلسٹ سماج انسانی نجات کی واحد ضمانت ہے۔‘‘
اس نام نہاد آزادی کے 67 سال بعد برصغیر میں آباد نسل انسانی کے بیس فیصد حصے کی حالت 1947ء سے بھی بدتر ہے۔ اس ذلت اور محرومی سے رہائی کا راستہ بھگت سنگھ اور اس کے کامریڈ بہت پہلے ہی دکھا چکے ہیں!


[تحریر: لال خان]


(بشکریہ طبقاتی جدوجہد)

Saturday, March 7, 2015

اوور کوٹ۔۔۔۔غلام عباس

جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیئرنگ کراس کا رُخ کر کے
خراماں خراماں پٹڑی پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں، گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں، بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی وہ مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھرپور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھات کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی۔ مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر نہیں معلوم ہوتا تھا اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز تیز قدم اٹھا رہے تھے، اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔ اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے، مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی، مگر اس نے ”نو تھینک یو“ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔ جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ بارونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی ہی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی۔ گویا کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے۔ راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی، مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رُخ نہ کیا اور سیدھا چیئرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔ ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت پیدا ہو گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کے بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرتا تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک اس کی پرواہ کیے بغیر کھیل میں مصروف رہے، مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔ نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بینچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس کی یہ شدت ناخوشگوار نہ تھی، بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا، وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے، تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں۔ حصول لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسب توفیق ریسٹورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محفوظ ہو رہے تھے۔ مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹڑی پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریح طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔ نوجوان سیمنٹ کی بینچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبہ اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو، زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے، ہر قسم کے اوور کوٹ قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خاکی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جنہیں نیلام میں خریدا گیا تھا۔ نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا، مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا، پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ بانہوں کی کریزیں بڑی نمایاں، سلوٹ کہیں نام کو نہیں، بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔ ایک لڑکا پان بیڑی سگرٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا تو نوجوان نے آواز دی۔ ”پان والا“ ”جناب“ ”دس کا چینج ہے؟“ ”ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟“ ”نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟“ ”اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلیے۔ لیں گے کیا آپ؟“ ”نہیں نہیں ہم خود چینج لائیں گے۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ“۔ لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے مصفا دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک چھوٹی سی سفید رنگ کی بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بینچ کے نیچے اس کے قدموں کے پاس آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بینچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا ”پیور لِٹل سول!“ اس کے بعد وہ بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ سینما کے برآمدے میں بھیڑنہ تھی، صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔ تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں، ایک خاص شان استغنا کے ساتھ، مگر صنف نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اچانک ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہرنکل آیا۔ اب7 بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹڑی پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریسٹوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لیے کھڑے تھے، کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے، کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے، کیونکہ وہ غل غپاڑا نہیں مچا رہے تھے، بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لیے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلاتکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگ دار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی، پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ایک ہسپانوی گٹار، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، پر ناقدانہ نظر ڈالی، اور اس کے ساتھ قیمت کا جوٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پرزوں کو ٹٹولا اور پھر کوربند کردیا۔ دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔ ”گڈا یوننگ سر۔ کوئی خدمت؟“ ” نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گرامو فون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے“۔ فہرست لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کردیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک سٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا اور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے، جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا، نے گرم جوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔ ”ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟“ ”چودہ سو بتیس روپے“۔ نوجوان نے اپنی بھنوؤں کو سکیٹرا، جس کا مطلب تھا ”اوہو اتنی“۔ دکاندار نے کہا ”آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کرسکتے ہیں کردیں گے“۔ ”شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں“۔ ”شوق سے دیکھیے۔ آپ ہی کی دکان ہے“۔ وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹرگشت شروع کردی۔ اب وہ ہائیکورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزررہاتھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی طبیعت کی چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا تھا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹڑی پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور ان میں کافی فاصلہ رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی۔ مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی ”او سوری“ کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔ نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹرگشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسامست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکاری ہی نہ تھا۔ مگر اس دلچسپ جوڑے نے، جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حددرجہ مشتاق بنادیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہوسکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔ اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاک خانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھرکورکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلوڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہوجائے کہ ان کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ اس لیے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہیے۔ جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا۔ مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہوگی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لیے گاڑی کی رفتار کم کی۔ وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ وہ تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے نمبر دیکھو۔ مگر لاری ہوا ہوچکی تھی۔ اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہوگئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹرسائیکل پر جارہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچل گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔ فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کے بڑے ہسپتال روانہ کردیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبہ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دونو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے ازراہ درد مندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑانہ لے جائے۔ شہناز نے گل سے کہا” کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ“۔ گل دبی آواز میں بولی۔” خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے“۔ ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟“ ”نہیں بھاگ گیا۔“ ”کتنے افسوس کی بات ہے“۔ آپریشن روم میں اسٹنٹ سرجن اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپارکھا تھا۔ اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مرمر کی میز پر لٹادیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبودار تیل ڈال رکھا تھا۔ اس کی کچھ کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سر کی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔ اب اس کے کپڑے اتارے جارہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک کا گلو بند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔ نوجوان کے گلو بند کے نیچے نکٹائی اور کالر، کیا سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بہت بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جابجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سویٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آرہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپارہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سویٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے اک پرانی دھجی سے جوشاید کبھی نکٹائی ہوگی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھنٹوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا۔ اور کئی جگہ کھونچیں بھی لگی تھیں۔ مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لیے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گل کی آنکھیں چار ہوئیں۔ بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے۔ مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں۔ اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آرہی تھیں۔بلاشبہ اس وقت تک وہ دم توڑچکا تھا۔ اسی کا جسم سنگ مرمر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی اس برہنگی نے اسے خجل کردیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرارہا ہے۔ اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں۔ ایک چھوٹا ساسیاہ کنگھا، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا آدھا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں لوگوں کے نام اور پتے لکھے تھے، نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹرگشت کے دوران میں اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھمادیئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال لیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھوگئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔

Thursday, March 5, 2015

دین ، دھرم ، اسلام تمہارا


دین ، دھرم ، اسلام تمہارا
ہم کو جینے دو خدارا
ہم نہ خون بہانا جانیں
نہ بندوق چلانا جانیں
اپنی سوچ اور اپنا عقیدہ
زور سے نہ منوانا جانیں
ہم اللہ کے جاہل بندے
تو اللہ کا راج دلارا
ہم کو جینے دو خدا را
حور کی لذت تجھے مبارک
دودھ اور شربت تجھے مبارک
ہم دوزخ کی آگ ہی لیں گے
ساری جنت تجھے مبارک
جنت ہم کو نہیں گوارا
ہم کو جینے دو خدارا
دین ، دھرم ، اسلام تمہارا
ہم کو جینے دو خدارا

(ضمیر)