Tuesday, May 20, 2014

میں ۔۔۔۔۔ عام آدمی

جب میں پانچویں جماعت میں تھا تو پہلی بار اپنے’’ دشمن‘‘ کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس بے دردی سے مجھے تکلیف دیتاہے،میرے حقوق کو غضب کرتا ہے اور میرا خون بہاتا ہے۔ یہ سب جان کر میں غصے میں پسینے سے شرابور ہوجا تا تھا اور اپنے ’’دشمن‘‘کا منہ نوچنے اور اس کا کلیجہ چبانے کا دل کرتا۔ سوچتا تھا کہ کیسے اس کے مظالم کابدلہ ایک ایک کر کے لے لوں۔۔۔ و قت گزرتا گیا، میں چھٹی جماعت میں آگیااور نصابی کتب سے اپنے ’’دشمن‘‘ کے بارے میں مذید’’ آگاہی ‘‘حاصل کی۔اس بار میرا غصہ پہلے سے زیادہ شدید تھاکیونکہ مجھ پر میرے ’’دشمن‘‘ کے مظالم کے نئے در واں ہوگئے تھے اور یہ داستان پہلے نہیں سنے تھے۔ جوں جوں سال گزرتے گئے میرے غصے کی شدت بڑھی گئی ، نفرت کا ایک پہاڑسینے میں کھڑا ہوگیا اور میں انتقام کی آگ میں جلتا گیا۔ کبھی کھبار اس آگ کی لہریں اور تپش اتنی تیز اور بھیانک ہوتی کہ پوری دنیا کو جلا کر راکھ کرنے کا دل کرتا۔ مگر مجبور، لاچار اوار تنہا۔۔۔۔۔کیسے ممکن ہوتا؟؟ میں اس آگ میں فقط خود ہی جل کر بھسم ہوجاتا تھا،کوئی اور حتیٰ کہ برابر میں بیٹھا شخص بھی اس کی تپش محسوس نہیں کرتا۔ اس آگ سے کسی کو کوئی نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ اس کے اپنے سینے اندر نہ لگی ہو۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے میں کبھی ٹیپو سلطان کے گھوڑے کی پشت پر بیٹھے دشمنوں کو زیر کرتا رہا، کبھی محمود و ایاز کے ساتھ نمازیں ادا کرتا رہا۔ پھر سترویں صدی کے وسط میں شاہ ولی اللہ کے ساتھ اسلام کی ’’تبلیغ‘‘ کی اور احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ انھوں نے ہندوستان کے ساتھ جو سلوک کیا۔۔۔۔۔۔۔ اٹھارویں صدی میں نے احمد شاہ شہید سے جہاد کا مطلب اورمفہوم سمجھا اسی صدی میں احمد رضاخان اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ مل کرزمین کو گول کہنے والے جاہلوں کے خلاف ’’جہاد ‘‘ کیا۔ ابتدا میں سرسید بھی ہمارے حامیوں میں تھے مگر جلد ’’مکر‘‘ گئے۔ میں مغل شہنشاہوں کو کنیزوں کے پہلووں میں بیٹھے تکتاتھا اور گوروں کی آمدبھی دیکھ لی ۔ ظلم کا بازار ہر دور میں گرم رہا۔ میرا دشمن ہر دور میں خون کی ہولی کھیلتا رہا۔ 1947 میں آزاد ملک میں سانس لینے لگا مگر میری سانس گھٹتی رہی ، لاشیں گرتی رہی۔ میرادشمن ظلم کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ اب چند برسوں سے مجھے محسوس ہونے لگا ہے کہ میں شاید پاگل ہو گیا ہوں۔مجھے ایک اور دشمن نظر آنے لگا ہے۔ اس کے ظلم کا انداز’’ مہذبانہ‘‘ ہے مگر میرے پہلے دشمن سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا چہرہ بھیانک نہیں(جیسا کہ اپنے پہلے دشمن کے بارے میں پڑھایا گیا تھا) مگر ارادے مکروہ ہیں۔ظلم کا داستاں طویل نہیں مگر مظلوموں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
۔یہ مجھ پر بم نہیں گراتامگر بھوکا رکھتا ہے۔

۔یہ مجھ سے لگان نہیں لیتا مگر ٹیکس لیتا ہے۔

۔ قرض وہ لیتا ہے ، بوجھ مجھ پہ آتا ہے اور چکاتا میں ہوں۔

۔ گاڑی وہ چلاتا ہے تیل کا انتظام میں کرتا ہوں۔

۔ منا فع وہ کماتا ہے فیکٹریوں میں کام میں کرتا ہوں۔

۔ خون پسینہ میں ایک کرتا ہوں مگر بینک بیلنس اس کا بڑھتا ہے۔

۔ بڑے شاندار گھر میں تعمیر کرتا ہوں مگراس میں رہائش اختیار وہ کرتا ہے۔

۔ سخت موسم میں گرمی ،سردی برداشت کر کے ، گھنٹوں لائنوں میں کھڑے ہوکر ووٹ میں دیتا ہوں مگر ایوانوں میں مزے وہ لوٹتا ہے۔
اتنا سب کرنے کے باوجود وہ خود کو میرا خیرخواہ کہتا ہے، اپنا دوست کہتا ہے اور خود کو میری خوشحالی کا خواہش مند کہتا ہے۔ میں کیسے
مان جاؤں؟؟ میں کیونکر یقین کروں؟؟ اب میں پہچان گیا ہوں اپنے دشمن کو۔۔۔ بھلے مجھے نصابی کتب میں جو بھی پڑھایا جائے۔۔۔
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر

کاش اس زبان دراز کا منہ نوچ لے کوئی

(جونؔ )

وفا ہی جفا؟

کہا جاتا ہے کہ مجھ سے ایک نیا رشتہ7 194ء کو جوڑا گیا اور میرے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا گیا جو مشرقی عورتوں کے ساتھ ان کے نا خدا مرد
کرتے ہیں۔ یہ بھی بارہا سن چکی ہوں کہ میری تاریخ اور میراماضی بہت شاندار رہا ہے۔ اپنی خوبصورتی بیان کر کے اپنے منہ میں مٹھو نہیں بننا چاہتی۔ میرے حُسن کوحسنِ یوسف سے تشبہ دی جاتی ہے۔ میری خوبصورتی دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں ماند پڑجاتی ہیں۔ میرے برف پوش پہاڑوں کو دیکھ کر گورے ،کالے سب پروانوں کی طرح میرے ارد گرد منڈلاتے ہیں، طواف کرتے ہیں اور کچھ قربان بھی ہوجاتے ہیں۔ میری سر سبز وادیوں اور لہلہاتے کھیتوں کی دلکشی ہر شخص پہلی نظر میں دل دینے پر مجبور کرتی ہے۔ میرے شفاف پانی کے چشمے لوگوں کو اپنی طرف ایسے کھینچتے ہیں جیسے مے خوار کو مے، عاشق کو معشوق، لوہے کو مقناطیس، بھوکے کو روٹی ، اور عابد کو معبود ۔۔۔۔ صاف و شفاف پانی کے آبشاروں کو دیکھ کر لوگوں کو بہشت کے دودھ کی نہروں کا گماں ہوتا ہے۔ میرے پاس سب کچھ ہوکر بھی کچھ نہیں ہے۔ میں اب اس دوشیزہ کی مانندجی رہی ہوں جس کی خوبصورتی اس کے لئے بھیانک خواب بن جاتی ہے اور چاروں سمت سے ننگی نظریں اس کا جینا دو بھر کر دیتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی عجیب سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔ مجھے ہر وفا کا صلہ جفا کی صورت ملا اور مل رہا ہے۔ کبھی مجھے جنرل کے جوتوں تلے روندا گیا اور کھی میرے بچوں کو شعیہ ، سنی کی ’’ہڈّی‘‘ پر لڑوایا گیا۔ میرے بچے، میرے سپوت ہر
میدان میں کارنامے انجام دیتے ہے مگر افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کبھی لالک جان بن کراپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مخالف فوج کے پرخچے اڑاتے ہیں تو کبھی نظیر صابر، حسن سدپارہ ، ثمینہ بیگ اور مرزہ علی
بن کر دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر فتح کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔ کھیلوں کے میدانوں میں ڈیانہ بیگ، محمد کریم، عباس، آمنہ اورارفہ ولی بن کرشاہین کی طرح اونچی اُڑان بھرتے ہیں۔ امن اور علم کا عَلم تو میرے بچوں کی خاص نشانی ہے اور پہچان ہے جسے وہ نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں بلند کئے ہوئے ہیں۔ مگر صلے میں کیا ملتا ہے؟؟؟؟ پہلے جہاں میرے کانوں میں مینا و بلبل اور خوبصورت پرندوں کی چہچہاہٹ رس گھولتی تھی اب بم دھماکے اور بندوقوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ لال گلاب ، چنبیلی اور دیگر رنگ برنگ پھولوں کی خوشبو میرے بدن میں بسی رہتی تھی ، اس کی جگہ بارود کی بُو نے لے لی ہے۔ رنگینیوں میں ڈوبے میرے
پیراہن اب میرے اپنے بچوں کے خون سے رنگین ہیں۔ وفاوؤں کا یہ صلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میرا قصور کیا ہے؟ میری خطا کیا ہے؟ کونسا جرم میں کرچکا ہوں؟؟ مجھ سے اور میرے بچوں سے ایسا کونسا گناہ سرزد ہوگیا تھا کہ اب ان کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا جاتا ہے؟ شاید ان کا لالک جان، نظیر صابر، ثمینہ بیگ، میرزہ بیگ، حسن سدپارہ، ڈیانہ بیگ، محمد کریم، عباس، آمنہ اور عارفہ ولی بننا غلطی ہے۔ میں آج یہ سوال پوچھنا چاہتی ہیں کہ کیا میری وفا ہی میری خطا ہے؟؟ اگر ہاں، تو پھر سزا دو مجھے۔۔۔ چھین لو میرے بچوں سے روٹی ۔۔۔ لڑادو انھیں۔۔۔ مٹادو مجھے۔۔۔ لُوٹ لو۔۔۔۔۔