Sunday, March 16, 2014

زخمی ہیں بہت پاؤں ، مسافت بھی بہت ہے

پرانے وقتوں میں جاگیر دار تعلیم کے خلاف تھا اور اپنے علاقے میں اسکول بنائے جانے کی بھر پور اور موثر اور موثر مخالفت کرتا تھا اب وقت کے ساتھ ان کا طریقہ مخالفت بھی تبدل ہوگیا ہے ۔ اب کچھ مجبوریاں لاحق ہیں اور اس پیمانہ کی مخالفت ممکن نہیں، تو سرمایہ دار اور جاگیر دار کی ملی بھگت سے ان کی مفادات کی ضامن بہترین حکمت عملی حاوی نظر آتی ہے کہ یہ طبقات تعلیم کے ساتھ ساتھ اب علم کی مخالفت پر بھی کمر باندھ چکے ہیں اور بڑی حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب ہیں ۔انھیں کامیابی کا عطیہ دینے میں ملک کے سیاستدانوں کا بھی بڑاہاتھ ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ ملک میں آج کل برساتی مینڈکوں کی طرح ہرسڑک ،گلی، محلے میں نام نہاد تعلیمی ادارے نظرآتے ہیں ۔ بے شمار تعلیمی ادارے زیر تعمیرہیں ۔ پرائمری اسکول، ثانوں تعلیم ، قانون، طب، زراعت ، نجینئرنگ، فاصلاتی تعلیم، دینی تعلیم وغیرہ جیسے بے شمار ادارے ہمیں ہر شاہراہ پر سال بھر’’داخلے جاری ہے‘‘ کے بینرکے ساتھ استقبال کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ملک میں شرح خواندگی اور معیاری تعلیم کی پستی پہلے سے بہتر نہیں ۔اس کی ایک تازہ مثال 2013میں CSSکے نتائج کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ جو پچھلے سال کی نسبت نہایت خراب ہے، پچھلے سال 14,335طلباء میں سے 10,006ان امتحانات میں شریک ہوگئے تھے اور 778کامیاب ٹھہرے(588میل،200فی میل )۔ اس سال 15,998نے اپلائی کیا اور 11,406امتحانات میں شریک ہوگئے ان میں صرف 238(66فی میل 172میل) نے کامیابی حاصل کی۔ یہی صورت حال اسکول سطح کی تعلیم کی ہے، ایک تازہ تحقیق کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جہاں 5.1ملین کم عمر بچے اسکول میں داخل نہیں، تعلیمی شعبہ پر ہمارے اخراجات میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ہر سال شرح پیدائش میں اضافہ کے باوجود پرائمری اسکول میں داخلہ کی شرح زوال پزیر ہے ایک رپورٹ کے مطابق 190-91میں پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح 46فیصد تھی جو دس برس بعد 2000میں 42فیصد پر آگئی اب صورت حال مذید تشویش ناک ہے ۔ بظاہر تو ہر فرد ،ہر ادارہ ، اور ملک کا ہرسیاست دان اور ہر طبقہ اس مسلئے میں دلچسپی رکھتا ہے مگر عملی اقدامات سے ہر کوئی گریزاں ہے ۔ سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ یہ تمام فراد صرف آئین میں اس چیز کو شامل کرتے اور دور اقتدار میں مختلف ’’بڑے بڑے‘‘ اور’’ اہم ترین‘‘ مسائل میں الجھے چلے جاتے ہیں ۔مگر بنیادی اور اہم ترین مسئلہ ان کی توجہ مبذول کروانے میں آج تک کامیاب نہیں ہوسکا۔ہمارے یہاں مختلف اوقات میں کوئی نہ کوئی تعلیمی پالیسی برائے نام ہی سہی سامنے آتی رہتی ہے ۔کمیشن بنتے ہیں جو اپنی سفارشات طے کرتے ہیں، آئین سازی ہوتی ہے ، قوانین بنتے ہیں ،تحریکیں چلتی ہیں لیکن آج تک ترقی اور بہتری کے لیے تو عملی کام نہیں کیا جا سکا۔ طبقاتی نظام تعلیم اور ٹیوشن سینٹر کلچر ملک میں اس شعبے کو مزید تباہی کے دھانے کی طرف لے جارہاہے ۔ امریکہ اور برطانیہ کے نصاب پڑھانے والے تعلیمی ادارے ہر گلی محلے میں پہنچ چکے ہیں اور اکیڈمی اور ٹیوشن سینٹر کی بہتات نے علاقے کی ٹریفک اور گھروں کے کرایوں میں بے ہنگم اضافہ کردیا ہے ۔ شہروں میں اسکول کے بعد ٹیوشن سینٹر ایک فیشن اور کینسر کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ یہ بات بالکل سمجھ سے بالاتر ہے کہ بڑے بڑے نجی اسکولوں کے طلباء جو موٹی موٹی فیسیں ادا کرتے ہیں، بھی اسکول کے بعد ٹیوشن کی طرف مائل ہیں ۔ ہمارے ملک میں اس شعبے کی مثال ایک ایسے ہیرونچی کی سی ہو گئی جو ہمیشہ نشے میں دھٹ لڑکھڑاتا ہے ہر دور میں حکمران سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ملی بھگت سے ایک نیا انجکشن اس شعبے کو لگا دیتاہے ۔تاکہ یہ شعبہ سنبھل نہ پائے یوں ہی لڑکھڑاتا رہے ۔کیونکہ اسی طرح عام عوام ،مزدور،کسان اور غریب طبقہ تعلیم اور شعور سے دور رہے اور ان کی خدمت کرتارہے