Wednesday, November 27, 2013

رفع حاجت بھی بڑا جنجال ہے۔۔

شہر کی دیواروں پر ایک جملہ اکثر پڑھنے کو ملتا ہے ’’یہاں پیشاپ کرنا منع ہے‘‘ لیکن اس نوٹیفیکیشن کو عوام ملک کے دیگر قوانین کی طرح روند ڈالتے ہیں اور اسی دیوار کے نیچے ’’ہلکا‘‘ ہوجاتے ہیں۔ کچھ مقامات پر لوگ تنگ آکر ایک اور دلچسپ جملہ لکھ دیتے ہیں کہ ’’دیکھو گدھا پیشاپ کر رہا ہے‘‘ لیکن ان کا یہ’’ وار‘‘ بھی ضائع جاتا ہے اور لوگ وہی’ ہلکا‘ ہوکر اپنی راہ لیتے ہیں۔ یہ انسان کی biological need ہے کہ نظامِ انہظام کے بعد فضلہ جسم سے خارج ہوجاتاہے۔ فرض کریں ایک شخص سندھ یا پنجاب سے طویل سفر کے بعد کراچی پہنچ جائے اور اسے ٹائلٹ جانے کی ضرورت پیش آئے تو کیا کریگا؟؟ مرد وں کے لئے اتنی مشکلات درپیش نہیں آتی۔ وہ کسی دیوار کی طرف منہ کرکے، کسی درخت کے نیچے یا کسی پارک کے کونے میں جاکر ’’ہلکا‘‘ ہوجائیگا۔یا پھر قریبی مسجد کا رُخ کریگا۔ لیکن بے چاری خواتین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لئے تو مسجد کے ٹائلٹ کے دروازے بھی بند ہیں۔ شہر میں پبلک ٹائلٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کراچی جو کہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے، میں صرف تین چار پبلک ٹائلٹ (برائے خواتین) ہیں، ان میں بِن قاسم پارک، کراچی چڑیا گھر شامل ہیں۔ مشرف کے دورِاقتدار میں کراچی کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے شہرکے مختلف بس اسٹاپس پر پبلک ٹائلٹ بنوائے تھے لیکن یہ احتجاجی ریلیوں کی نذر ہوگئے۔ مختلف احتجاجی مظاہروں میں کھڑکیاں اور دروازے اکھاڑ کر لے گئے۔ ہمارے ملک کے اسلام کے ٹھیکیدار اور مذہبی انتہاپسندوں نے تو پہلے ہی اس پر ’’فحاشیت‘‘ کا ٹھپّہ لگادیا تھا۔ UNICEFکے سروے کے مطابق پاکستان میں چار ملین یعنی چالیس لاکھ سے ذیادہ افراد ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ فرض کریں کسی خاتون کو دورانِ سفر، بس اسٹاپ یا شاپنگ کے بعد ٹائلٹ جانے کی ضرورت پیش آئے، تووہ بے چاری کہاں جائیگی؟؟ حکومت کو چاہئے کہ شہر کے مصروف شاہراہوں کے بس اسٹاپس پر پبلک ٹائلٹ تعمیر کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے عوام ڈرون حملے، مہنگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی کے بعد رفع حاجت کی وجہ سے جان بحق ہونا شروع کریں
یہاں مجھے سیّدمحمد جعفری کی ایک نظم ’’بھنگیوں کی ہڑتال‘‘ یاد آرہی ہے۔
بھنگیوں کی آج کل ہڑتال ہے
کہتر و مہتر کا پتلا حال ہے
گردشِ دوراں نے ثابت کر دیا
رفعِ حاجت بھی بڑا جنجال ہے
ضَبط کی حد پر کھڑہیں شیخ جی
سانس کھینچتے ہیں مگر منہ لال ہے
پیٹ پکڑے پھر رہے ہیں سیٹھ جی
جیسے دھوتی میں بہت سا مال ہے
آگیا روکے سے رُک سکتے نہیں
اپنا اپنا نامہء اعمال ہے
ہر گلی کوچے کی اپنی جھیل ہے
ہر جگہ دلّی میں نیتی تال ہے