Monday, December 3, 2012

تعلیم بھی فتنہ۔۔۔۔۔

دیوار پر بنی تصویر میں فضل الرحمن صدر بُش کی دوش پر سوار ہے، دوسری تصویر میں ایم۔کیو۔ایم کے قائد الطاف حسین مشرف کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔ بائیں طرف صدر زرداری کے نام کے ساتھ غلیظ گالیاں لکھی گئی ہیں اور ساتھ ہی فریال تالپور کا نام بھی درج ہے۔دائیں جانب سندھی قوم کو بُرا بھلا کہا گیا ہے اس کے نیچے جواباـپنجابیوں کو ظالم اور غدّار لکھا گیا ہے۔ اس کے بیک گراونڈ پر لڑکی کی برہنہ تصویر بنادی گئی ہے۔اور اس کے سینے پر دو تین فون نمبر درج ہیں اور کا ل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ رحمن ملک کے نام کے آگے غلیظ گالیاں دو لائنوں پر مشتمل ہیں لیکن الطاف بھائی یہاں رحمن ملک کو شکست دیتے نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ناظم منّور حسن کو بھی ’’اعلیٰ القابات‘ـ‘ سے نوازا گیا ہے۔ نواز شریف کے سابق بغیر بالوں والے سر پر کافی ’’تعریفی کلمات‘‘ نقش کر دئے گئے ہیں۔ یہ تمام تحاریر و تصاویر ہمارے ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوانوں نے جامعہ کراچی کی مین لائبریری کے ٹائلٹ کی دیواروں پر بنادی ہیں۔ افسوس کہ قلم کی تقدّس کو اس غلیظ جگہ پر پامال کیا جاتا ہے۔انہیں طالب علم کہنا طالب علمی کی بے حرمتی ہے اور ان کی تعلیم کلنک کے سوا کچھ نہیں۔یہ لوگ شعر کے ایک نا مکمل مصرے کی طرح ہیں کیونکہ اخلاقیات اور عمل کے بغیر انسان کو نامکمل تصّور کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں ان افراد سے ان پڑھ لاکھ درجہ اچھے ہیں کیونکہ وہ اس طرح بے ہودہ حرکتیں نہیں کرتے۔ یہ نامعقول باتیں اور بے ہودہ تصاویر صرف کراچی یونیورسٹی میں نہیں بلکہ پورے ملک کے کالجز اور جامعات کے باتھ روم میں نظر آتی ہیں حد تو یہ ہے کہ مساجد کے ٹوئلٹ کی دیواریں بھی محفوظ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ اور نوجوان طبقہ قوم کا سرمایہ اور ملک کا معمار ہوتا ہے لیکن افسوس صد افسوس ادھر یہ افراد بعداز استعمال فلش کرنا اور پانی ڈالنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔۔۔۔۔یہاں یہ طبقہ اپنے دل و دماغ میں نفرتیں اور غلاظت کئے پھرتا ہے۔ ڈگری اور اچھے نمبرز تو حاصل کرتے ہیں لیکن اخلاقیات اور انسانیت سے کوسوں دُور چلے جاتے ہیں۔ اِ نہیں سمجھانے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ یہاں اساتذہ کورس کی کتابیں رٹّوانے اور والدین پیسہ کمانے میں مصروف ہیں۔