Thursday, September 6, 2012

بارش.....

مجھے بارش پسندہے
صرف دیکھنے سے دلچسپی
انھیں بھیگنے سے محبت
آج ویسا ہی موسم ہے
میری کھڑکی کھلی ہے
مگر دریچے دل کے مقفل ہیں
وہ بھیگتے جارہے ہیں
ٹھٹھرتے لب،بھیگتا آنچل
وہ گیلے بالوں کا رخسار چھوُن
ان کے گالوں سے چپکنا
مجھ کو جلا کر راکھ کرتے ہیں
ہوائیں سرد ہیں لیکن
مجھے صحرا کی لو معلوم ہوتی ہیں
نہ جانے کب میرے تشنہ وجود پر
کوئی بادل اتر آئے
اور اس ساون کے موسم میں
میں اس کے ساتھ بھیگ جاؤں

Wednesday, September 5, 2012

سیاست۔۔۔؟؟؟؟؟؟

عرضِ شمال کی حسین وادیوں میں بدامنی کے پے درپے واقعات سے جہاں خوف و ہراس پایا جاتا ہے وہی گلگت بلتستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی لگ رہا ہے۔سانحہء بابوسر کے بعد گلگت میں فائرنگ اور دھماکوں کی خبریں تواتر آرہی ہیں ان واقعات میں کئی بے گناہ معصوم شہری ذندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن اب تک ان واقعات میں ملوث کوئی کردار گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔مہدی شاہ حکومت صرف دعویے اور اعلانات کے علاوہ کوئی عملی کام کرتی نظر نہیں آتی۔ ان حالات کو دیکھ کر جونؔ ایلیا کایہ شعر دل و دماغ کے دروازوں پر دستک دیتا ہے
کون اس گھر کی دیکھ بال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کیا ہی اچھا ہوتا کہ گلگت بلتستان کے سیاستدا ن اور مذہبی علماء علاقے میں لگی فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینے کے بجائے بُجھانے کی کوشش کرتے،لیکن بدقسمتی سے ان میں بیشتر لوگ لاشوں پر بھی سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔ایک ایسا ہی واقعہ گزشتہ دنوں یاسین میں پیش آیا۔ رقص چوک گلگت میں ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار راجہ جمال الدین، جنہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا، کی لاش جب آبا ئی گاؤں یاسین پہنچ گئی تو وہاں کے نامور سیاستدان اور این اے کونسل کے امیدوار راجہ جہانزیب خطے میں لگی آگ کو ہوا دیتے نظر آئے۔ 1500کے قریب لوگ جو کہ تدفین اور فاتحہ خوانی کے لئے آئے تھے،جلوس کی شکل میں دوسرے فرقے کے خلاف نفرت انگیز نعرہ بازی کرتے رہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میںیہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا گیا ۔ سب بڑا احمقانہ عمل یہ تھا کہ لاش گھر لے جانے کے بجائے تقریبا پندرہ کلومیٹر کا راستہ جلوس کی شکل میں طے کر کے طاوس چوک پہنچ گئے، وہاں سے واپس قبرستان۔ سوال یہ ہے کہ لاش کو بارا ت کی شکل میں گھمانے کا مقصد کیا تھا؟؟ دوسرے فرقے کے خلاف نعرہ بازی کی کیا ضرورت تھی؟؟ تدفین کے بعد جہانزیب نے نہایت غیر ضروری تقریر کی جو کہ دھمکیوں سے بھر پور تھی۔کسی سیا ستدان کو اس قسم کے الفاظ بالکل ذیب نہیں دیتے۔وہ بھی ایک ایسے موقعے پر جب پورا علاقہ مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہو۔ نماز جنازہ پڑھانے والے مولانا صاحب جن کا تعلق داماس سے بتایا جاتا ہے،نے حیرت انگیز انکشافات کئے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی RAWنے حالیہ فسادات کرانے کے لئے چار کروڑ روپے دیے ہیں۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ حکومت کو چاہیے کا مولوی صاحب سے پوچھ لے۔ اور ا ن ا فراد کو مولانا صاحب سے معلومات لیکرگرفتا ر کیا جائے ۔ جہانزیب جو تدفین میں شریک افراد کا شکریہ ادا کرنے آئے تھے، نے اپنی تقریر میں کہا کہ چلاس ،تانگیر ، بشام ،داریل ، سوات سے ان کے ’’فدائی‘‘ انتقام لینے کے لئے مسلسل رابطے کر رہے ہیں، انھیں میرے ایک اشارے کی ضرور ت ہے۔ انھوں نے مذید کہا کہ اگر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو اپنی طاقت کا استعمال کریں گے اور ایک کے بدلے دودو لاشیں گرائنگے۔یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ جہانزیب چلاس، داریل، تانگیر کی کونسی طاقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟؟ کیا یہ وہی ’’طاقت‘‘ تو نہیں،جس نے چند ماہ قبل چلاس میں معصوم شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگا تھا؟؟؟ کیا یہ وہی ’’طاقت‘‘ تو نہیں،جس نے چند روز قبل بابوسر کے مقام پر معصوم شہریوں کے خون ہولی کھیلی تھی؟؟؟؟ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ ان حضرات سے دریافت کرے کہ پانچ لاکھ کی افرادی قوت(جس کا ذکر تقریرمیں جہانزیب نے کیاتھا) سے کونسے دشمنوں کا صفایا کرینگے؟؟؟ اس ایک تقریر نے یاسین کے سیاسی حالات کو یکسر بدل دیا ہے۔یاسین کے سادہ لوح عوام پی پی پی کے سابق جنرل سکٹریری غلام محمد اورMLA ایوب شاہ سے بیحد مایوس ہوچکے ہیں اور ان کا جھکاؤ جہانزیب کی طرف بڑھ گیا تھا،اب اپنی سیاسی سوچ کوبدل رہے ہیں ان کی نظریں اب کسی نئے سیاستدان کو ڈھونڈ رہی ہیں جو صحیح معنوں میں انکی نمائندگی کرے۔ دُعا ہے کہ یاسین کے عوام کو ایسی نوجوان سیاسی قیادت نصیب ہو جو سیاسی بتوں کو توڑ دے اور مذہبی انتہا پسند سیاستدانوں کو زیر کر کے حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی کرے۔(آمین)