Saturday, February 4, 2012

......جنّتِ ارضی.......

پاکستان کتنا حسین ملک ہے اِس کا اندازہ ہم نے ’’پاکستان ٹور‘‘ کے بعد لگالیا۔ہم کتنے بد نصیب ہیں کہ اتنے حسین ملک میں رہتے ہوئے بھی اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہاں کے لوگ سیرو سیاحت سے دُور بھاگتے ہیں اور ملک کے حسیں مناظِر سے لاتعلق شہروں میں رہتے اپنی مختصر ذندگی بِتا دیتے ہیں۔ یہ لوگ کھا نے پینے ،شادی بیاہ کی فضول رسوما ت ، اور سماجی حثیت کو بلند کرنے کے لئے بے دردی سے پیسے لُٹاتے ہیںمگر اپنے ملک کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لئے ان کے پاس وقت ہے نہ پیسہ۔ گِنے چُنے لوگ اللہ کا نام لیکر نکل پڑتے ہیں اور ان خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیںجو ہمیشہ ان کے منتظر رہتے ہیں۔ ' ’’پاکستان ٹور‘‘ کے بعد ہم نے بھی خود کو ان گِنے چُنے لوگوں میںشامل کر لیاجو قدرتی مناظر کے دلدادہ ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ہر سال کی طرح اس سال بھی ہمارے ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان ٹور کا پروگرام بنایا۔پروگرام کے مطابق سب کراچی کینٹ سٹیشن جمع ہو گئے اور بذریعہ ’’پاکستان ایکسپریس‘‘راولپنڈی پہنچ گئے ۔ راولپنڈی ا سٹیشن پر ہم ایک دوسرے کو پہچان نہیں پا رہے تھے کیونکہ گردو غبار نے ہماری شکلوں کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔اور چہرے بھی خاصے ہیبت ناک ہوگئے تھے کیونکہ میک اپ اُتر چکا تھا اور اُن کے ’’اپنی‘‘ چہرے واضع ہوگئے تھی۔
وہاں سے فوراً اسلام آباد کا رُخ کیا اور یوتھ ہاسٹل اسلام آباد میں قیام کیا ۔۔ اگلی صبع بزریعہ بس فیصل مسجد کی طرف نکل پڑی۔اسلام آباد کے خوبصورت منا ظر فیصل مسجد تک ساتھ ساتھ چلتے رہی۔ سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میںیہ سفید عما رت خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہی۔اب ہماری بس کا رخ ’’پیر سوہاوہ‘‘ کی طرف تھا۔بس میں بلکل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہماری بس درختوں میں پوشیدہ سڑک پربھاگتی ہوئی ’’پیرسوہاوہ‘‘ پہنچ گئی۔سب طلباء پیر سوہاوہ کی کوبصورتی مین ایسے کھوئے ہوئے تھے کہ اپنے آپ کو بھی بھول گئے تھی۔ہماری آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی۔وہاں سیاحوںکا کافی رش تھا اور لوگ ان خوبصورت مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھی۔ پیر سوہاوہ سے واپسی پر ہم ’’دامن کوہ ‘‘پہنچ گئی۔ راستے کے دائیں بائیں درخت تیز ہوائوں کے ساتھ جھک جھک کر ہمارا استقبال کر رہے تھی۔ دامن کوہ دلفریب نظاروں میں گھرا ہوا تھا۔ اونچے نیچے ٹیلوں پر لگے درخت اس حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ پیرسوہاوہ اور دامن کوہ کے ایک سے ایک خوبصورت مناظر دیکھ کر ہم بالکل تازہ دم ہوگئی
۔اگلی روز ہماری بس کھوڑہ کی طرف دوڑ رہی تھی۔’’کھیوڑہ سالٹ ماینز‘‘ دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہی۔ شدید گرمی تھی اور گرمی سے بچنے کے لئے ٹھنڈے مشروبات اور برف کے لئے بس کو راستے میں کئی جگہ رکنا پڑا۔کھوڑہ سالٹ مانز کے لئے باہر ٹھنڈی ہوا ہمیں خوش آمدید کہا۔کان کے اندر درجہ حرارت 18 ڈگری سینٹی گریٹ جبکہ باہر درجہ حرارت0ڈگری سینٹی گریٹ تھا۔ہمارے چاروں اطراف میں نمک ہی نمک تھا۔کان کے اندر نمک کی ایک خوبصورت مسجد اور نمک کا مینار پاکستان بنا ہوا ہی۔
شکر پڑیاں کا شمار اسلام آباد کے مشہور سیاحتی جگہوں میں ہوتا ہی۔ ’’پاکستان مونومنٹ‘‘ بھی یہاں سے کچھ زیادہ دُور نہیںہے جہاں قائداعظم محمد علی جناح،مادرِملت فاطمہ جناح اور مصّورِ پاکستان علامہ اقبال کی تصاویر اتنی خو بصورتی اور مہارت سے بنائی گئی ہیںکہ دیکھنے والا محسور ہوجاتا ہی۔ جسے دیکھتے ہی ان عظیم رہنماوںکے لئے دلی عزت و وقار اور اس آڑٹسٹ کے لئے داد کے کلمات خود بخود منہ سے نکل جاتے ہیں جس نے یہ شاہکار تخلیق کیا ہی۔سب لوگ ان دلکش مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھی۔تھوڑی دیر بعد ہم ’’لوک وِرثہ ‘‘ کی طرف نکل پڑے ، جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں کے ثقافت کو بہت خوبصورتی سے یکجا کیا ہوا ہی۔ان مجسموںکو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ ابھی اُٹھ کر بولنا شروع کر دینگی، اور بنانے والے آرٹسٹ کی شان میں تعریفی کلمات خود بخود ادا ہوجاتے ہیں۔ لوک وِرثہ سے ٹیکسیلا میوذیم سے ہوتے ہوئے ہم ’’خان پو رڈیم ‘ ‘ پہنچ گئے ،جو اسلام آباد سے چند کلومیٹر دُور پہاڑوں کے درمیان واقع ہی۔ڈیم کے اطراف میںپتھریلے ٹیلے ہیں۔ اطراف پہاڈوں کا عکس ڈیم کے شفاف پانی میں نظر آتا ہے ۔ یہ اسلام آباد میں ہمارا آخری دن تھا ۔
ہمارا اگلا پڑاو مَری تھا، سرسبز پہاڈوان کو چیرتا ہوا مَری کا روڈ اِنتہائی دلکش منظر پیش کرتا ہی۔ ہماری بس ’’پتریاٹہ ‘‘کی طرف دوڑ رہی تھی اور ہم گیتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھی۔ مَری کے خوبصورت مناظر دیکھنے کے لئے ہمارے سر بے اختیار بس کی کھڑکیوں سے باہر نکلے ہوئے تھی۔ یہاں سیاحوں کا بڑا رش لگا رہتا ہے ، چیر لفٹ پر بیٹھے کے لئے لوگوںکو گھنٹوں لائن میں کھڑے انتظار کرنا پڑتا ہی۔ لوگوں کو لمبے قطار میں کھڑے دیکھ کر مجھے کراچی کے بینک کے باہر بِل جمع کراتے لوگوں کی یاد آگئی۔ یہا ں چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوںمیںخوبانی اور آلو بخارے لئے بس کے گیٹ پر سیاحوں کو ویلکم کہتے ہیں۔
اب ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی تھی ہم نے کپڑوں کے بیگ میں سے پہلی بار پورے بازو کے شرٹ اور سویٹر نکال کر ذیب تن کئے تھے ۔ پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے ہم ہوتھ ہوسٹل بھوربن پہنچ گئی۔ بھوربن کی مہکتی فضا نے سب کو تازہ دم کردیا، یہ سرسبز وادی بادلوں کی تخت پر براجمان ہی۔ یہاں ہوتھ ہوسٹل ایک اونچی جگہ پر بنا ہوا ہے یہاں کھڑے ہوکر جب نیچے نگاہ ڈالتے ہیں تو دم بخود رہ جاتے ہیں۔ یہا ں کے سر سبز پہاڑ سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ بھوربن سے نکلتے وقت ہر سیاہ یہ سوچتا ہے کہ کاش وہ اس حسین وادی کا حصّہ بن جائے اور واپس شہر نہ جانا پڑی۔ ہماری اگلی منزل مری تھا ،صبع ہم سب بس میں سوار ہو کر مال روڑ کی طرف نکل پڑے یہا ں خواتین کے انتظار میں ہمارا آدھا گھنٹہ ضائع ہو گیا، جو بڑے زوق و شوق سے خریداری میں مصروف تھیں۔خریداری کے بعد خواتین کے شہرے خوش و خرم اور ہاتھوں میںسامان سے بھرے تھیلے لٹکائے ان کے ساتھ ائے ہوئے مرد حضرات منہ لٹکائے ہوئے برامد ہوئی۔ یہاں سے نکل کر ہم خانص پور کی طرف رواں دواں ہوگئی۔ سرد ہوا کا رقص جاری تھا، یوتھ ہاسٹل خانص پور کے گیٹ پر تیز بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ شدید سردی لگ رہی تھی کمروں میں پہنچتے ہی سب نے بھاری سویٹرز اور کیپ پہن لئی۔ ہاتھ دھونے کے لئے نل کھولنے پر یخ ٹھنڈے نے چونکا دیا سب نے کمبلوں کے اندر گھُسنے کو ترجیع دی۔
wاگلی صبع ہم وادی کاغاں کی طرف روانہ ہو گئے ۔ بالاکوٹ سے آگے حسین منا ظر کلینڈر کے ورق کی طرح کھلتے جاتے ہیں۔ بس کی کھڑکھیوں سے دوردور تک بر فیلی چوٹیاں ڈھوبتی اُ بھر تی نظر آتی ہیں، ہلکی ہلکی آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہو جا تی ہے جو ناراں میں اپنی انتہا تک پہنچ جاتی ہی۔ ناراں کی چوُٹیاں پوری سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کے آبشار اس کی حُسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک اور جھیل لولوسر اس خوبصورت واد ی میں واقع ہیں۔
جھیل سیف الملوک ناراں سے آٹھ کلومیٹر دُور ہی، یہاں کا راستہ انتہائی تنگ اور خطرناک ہی۔ اسی وجہ سے صرف جیپ ہی جا سکتی ہے جس میں آٹھ لوگوں کی بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہی۔ راستے میں جگہ جگہ گلیشیرز ہیں، بلند و بالا برف سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان یہ جھیل خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہی۔ یہاں سیا حوں کا رش لگا رہتا ہی، مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگ مختلف زاویوں سے جھیل کی تصاویر بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری یہ جھیل پُراسرار ماحول سے دمکتی ہے اور صاف پانی آئینے کی طرح جگمگا تا ہی۔ جھیل کے شفاف پانی میں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں جھلملاتی ہیں۔
یہ سراسر زیادتی ہوگی کہ ناراں کے بارے میں بات کی جائے اور دریائے کُنہار کا ذکر نہ آئی۔ نہایت سردی کے باوجود دریائے کُنہار کی خوبصورتی سیا حّوں کو اپنی طرف کھینچتی ہی۔ سیّاح ہوٹل کے کمروں اور خیموں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دریا کا دوسری طرف کافی آبادی ہے اور یہاں لکڑی کے ایک خطرناک پُل کو یہاں کے باسی دریا عبور کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کے حسین مناظر سیّاحوں کو کیمپنگ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ شام کو دریائے کُنہار کے کنارے پر سرد ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مجھے اس وادی سے محبت ہونے لگی تھی۔
جھیل لُولُوسر ناران سے اکیالیس ( ۴۱ ) کلو میٹر کی مسافت پر برف پُوش پہاڑوں کے درمیان واقع ہی۔ اگلے دن ہم جھیل لُولُوسر کا سفر شروع کر دِیا۔ جھلکڈ تک کا سفر بس میں طے کیا ، مجھ سمیت کچھ لڑکوں نے یہ سفر بس کی چھت پر طے کیا۔ وہاں سے آگے صرف جیپ ہی جا سکتی ہے کیونکہ راستہ کافی تنگ اور خطرناک ہی۔ لُولُوسر کے راستے میں ہزاروں کچے اور عارضی گھر دیکھائی دیتے ہیں۔ بھیڑ، بکریاں اور خچر چراگاہوں میں چر رہے ہوتے ہیں۔ جھیل لُولُوسر تک کا راستہ بڑے بڑے پتھروں سے بھرا پڑا رہتا ہے ۔ یہ جھیل گیا رہ ہزار کی بلندی پر واقع ہے ، چلتے چلتے ایک موڑ مڑتے ہی لُولُوسر کا جادوئی منظر سامنے آتا ہی۔ پتھروں میں گھری یہ جھیل پُراسرار ماحول سے دمکتی ہے اور صاف پانی آئینے کی طرح جگمگا تا ہی۔ جھیل کے شفاف پانی میں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں جھلملاتی ہیں۔ یہاں ہر طرف خا مو شی چھائی رہتی ہے کیونکہ آس پاس آبادی نہیں ہے اور دُور ہو نے کی وجہ سے بہت کم تعداد میں سیّاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔
اگلے روز وادی ناراں کو گُڈبائے کہہ کر شوگراں سے ہوتے ہوئے ’سِری‘اور ’پائے ‘ کے دلکش وادیوں میں پہنچ گئی۔کاغان روڑ پر واقع ’کیوائی‘ سے جیپوں میںسوار ہوکر شوگراں کی طرف چل پڑی، یہاں سے اُبھرتے ہوئے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہی، جن میں سے اکثر چُوٹیاں برف کا لُبادہ اوڈھی ہوئی ہیں۔ ’سِری ‘ اور ’پائے ‘ کے عجیب و غریب ناموں کے بارے میں یہاں کے مقامی لوگ ایک کہانی سُناتے ہیں ان کے مطابق صدیوں پہلے وہاں کے سرسبز وادیوں میں ایک خوفناک جانور گھومتا تھا ۔ ایک دن گا ئوں کے ایک آدمی کی پالتو بکری یہ جانور اُٹھا لے گیا ، جب اس بکری کی تلاش شروع کی تو ایک حسین جگہ پر بکری کی سِری ملی اسے ’’سِری‘‘ کا نام دیا گیا اور بلندی کے آخری حد پر پائے ملنے پر ’’پائے ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ یہاں کا راستہ نہایت دشوار گزار، تنگ اور اطراف میں گھنا جنگل پھیلا ہواہی۔ سری میں بادلوں کی وجہ سے اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز نہیں ہو سکی۔ ہمیں ٹیکسیلا پہنچنا تھا اس لئے جلدی جلدی جیپوں میں سوار ہوکر واپس کیوائی آگئے اور ٹیکسیلا کی طرف رواں دواں ہوگئی۔ رات یوتھ ہوسٹل ٹیکسیلا میں گزاردی اور صبع اسلام آباد پہنچ گئے ، شام میں ’’راول پارک‘‘ اور ’’راول ڈیم ‘‘ کو دیکھنے گئی۔ اگلی صبع راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کی طرف نکلے تو اسے باربار دیکھا کیونکہ شمال کے پہاڑوں، برف پُوش چوٹیوں، جھیلوں اور سر سبز و شاداب چراگاہوں نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا دیا تھا۔ بذریعہ بس پنڈی اسٹیشن پہنچ گئے اور وہاں سے ’’پاکستان ایکسپریس‘‘ کی دوش پر کراچی آگئی۔ یوں ہمارا سترہ (۱۷) روزہ دلکش سفر اپنے اختتام کو پہنچا، لیکن اب تک خوبصورت وادیوں کے دلفریب مناظر میری آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلتے ہیں۔ آ خر میں میں اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے ڈیپارٹمنٹ کی چئیر پرسن سرورجہاں عبّاسی محترم اساتذہ وسیم انصاری ، محمد امتیاز ،سّید عنایت اللہ اور آفس اسسٹنٹ محمد شبیر کا شکریہ ادا کرنا چاہونگا، جنہوں نے اس خوبصورت ٹُوور کا انعقاد کاکرالیااور ملک کے حسین وادیوںکو دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ مجھے امید ہے آیئندہ بھی اس طرح کے پروگرام منعقد کرتے رہینگی۔