Thursday, December 22, 2011

....کیا مال ہے......



’’اوئے اجمل آ ج بھی ’’وہاں‘‘ چلتے ہیں۔‘‘ وجاہت نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ، شرارت بھری نظروں سے اشارہ کیا. ’’ارے ہاں. اب تو میں روزانہ وہاں جاونگا. اتنی اچھی جگہ بھلا اور کہاں ہے۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا؟‘‘، میراقہقہہ گونجا. میں اور وجاہت ایک ہی کمپنی میں پچھلے سات سالوں سے نوکری کررہےہیں. وہ میرا ہم عمر ہے ، چالیس سال کا۔ اس کا اور میرا گھر بھی ایک ہی رُوٹ پر آتا ہے اسی لیے ہم دونوں میری بائک پر آفس آتے جاتے ہیں۔ ہم دونوں کی طبعیت کافی ملتی جُلتی ہے. کمپنی میں اکثر ڈانٹ بھی دونوں کو ایک ساتھ اور ایک ہی طرح کے "کارناموں" پر پڑتی ہے. ہماری "حرکتوں" کی وجہ سے باس کو اکثریہ کہتے ہوے سنا جاتا تھا کہ "یہ دونوں تو چالیس سال کے بچے ہیں". کئی مرتبہ میں نے اس عادت کو چھوڑنے کا عہد کیا لیکن وجاہت سے ملتے ہی تمام باتیں اور وعدے بھول جاتا . ’’اجمل ادھر آ جلدی.۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھ سامنے۔۔لال جوڈے میں آج تو بڑی ذبردست لگ رہی ہے‘‘۔ میرے بیٹے کی عُمر کا لڑکا۔ مجھے استقبالیہ کاونٹر پر آج آنے والی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا. یہ کوئی نئی بات نہیں تھی. کمپنی کے تمام لڑکے عمو ماً مجھ سے اور وجاہت سے اِسی انداز میں بات کرتے ہیں. اس میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں ، ہم خود بھی اسی طرح عُمر کی حدوں کو بالائے طاق رکھ کر "فری ماحول" میں بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ عجیب سا بھی لگتا ہے. چھُٹی کے بعد ہم دونوں اُسی پرائیوٹ اسپتال کے پاس آگئے . حسبِ معمول یہاں بڑا رش تھا۔ ’’اُدھر کھڑی کر گاڑی چھاوں میں‘‘ وجا ہت نے سامنے اشا رہ کرتے ہوئے کہا۔ میں موٹر سائکل کھڑی کر کے آگیا اور ’ہم دونوں"چہل قدمی‘‘ کرنے لگے ۔ ’’وہ دیکھ یاااااار ....وجاہت نے یار پر زور دیتے ہوے کہا....." ۔۔۔سبحان اللہ ۔۔کیا مال ہے یار.....، چل اُدھر چل ... چل نا یار جلدی..... ‘‘. ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی، ادھیڑ عُمر خاتون کے ساتھ ہمارے آگے آگے چل رہی تھی۔ وجاہت سر تا پا اس لڑکی کے بدن کا جائزہ لے رہا تھااورآنکھوں ہی آنکھوں میں مزے لینے کے ساتھ ساتھ چھٹخارنے دار کمینٹری بھی کر رہا تھا۔ ’’ اُف کیا چال ہی۔۔۔کیا نقشہ ہے ۔۔۔ بنانے والے نے کیا چیز بنائی ہے ......۔کاش۔۔۔۔۔۔۔‘‘.وہ بولتاجارہا تھا اور ساتھ ساتھ میں بھی داد دے رہا تھا۔ جواباً میں بھی ’’اچھے اچھے جملے‘‘ بتا رہا تھا حسبِ عادت۔ ۔۔۔۔۔ تھوڑی دُور جا کر وہ دونوں کسی وجہ سے پلٹ گئیں۔۔ میں تو دیکھتا ہی رہ گیا، جتنا جاذِب وپُرکشش اسکا بدن تھا ، اس سے کئی گُنا ذیا دہ خوبصورت اور دِلکش اس کا چہرہ۔ ۔۔۔میرے منہ سے بے اختیار ماشااللہ نِکلا۔۔ ۔ اسی لمحے میں نے وجاہت کو غشی کھا کر گرتے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے وہ لڑکی بھاگ کر آئی اور وجا ہت سے لِپٹ کر پا گلوں کی طرح رو نے لگی. وجا ہت بے ہوش پڑا تھا. اور وہ لڑکی دیوانہ واراس سے لپٹ کر رو تے ہوے کہ رہی تھی، ابو ... ابو .... کا ہوگیا آپ کو ... آنکھیں کھولو نا ابو ... آنکھیں کھولو نا"......میرے حواس منجمد ہو گیئے. سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟؟ نظریں بچا فورآ وہاں سےنکل پڑا۔۔ اپنی ٹانگیں گھسیٹتے ہوے. زندہ لاش کی طرح .

Monday, December 19, 2011

دسمبر کا آوارہ جھونکا...۔۔.....



دسمبر کی ہوائوں کا
ایک آوارہ جھونکا
رات کی اندیھروں میں
میری آنکھوں کے در پر
دستک دینے آتا ہی
ہر دفعہ جب آتا ہی
نامراد نہیں لوٹت

Saturday, December 17, 2011

.........بہت دُور........



میں تم سے دُور کیوں ہوں؟
تمہیں دکھ ہے بہت اس کا؟
وجہ تم جاننا چاہتے ہو؟
تو سُن لو
میں جب نظریں ملاتا ہوں
جھکانا بھول جاتا ہوں
لبوں سے جو نہیں کہتا
وہ نظروں سے بتاتا ہوں
قُربت جس سے ہو
شہہ رگ کے پاس ہوتا ہوں
کسی سے دُور جاتا ہوں
تو اتنا دُور جاتا ہوں
پلٹ کر بھی نہیں دیکھت

........وادیِ احساس.........



آج پھروادیِ احساس سے گُزرا
عجب دِلکشی تھی
پُر اسرار خامُشی تھی
بارہا مِلنے کے باوجود
بڑی اجنّبیت تھی
سنّا ٹا تھا
خوفناک تنہا ئی تھی
جانے پھر کب ملوِںگا؟
لیکن جب بھی ملوِںگا
مجھے اِتنا یقین ہی
ارادے باندھ کر ہی
لُوٹ آوںگا

............دوستی ..........


to all my friends

دوستی نہیں مرتی
نہیں ہے یہ خواب کی طرح
ریزہ ریزہ ہو کر جو بکھر جائی
یہ نہ زندگی جیسی
جو وفا نہیں کرتی
یہ نہ تا ریکی جیسی
جو سب کچھ چھپاتی ہی
ہے نہ روشنی جیسی
سب عیاں جو کرتی ہی
ہے نہ یہ سحر کا سا
جو بے خوابی پھیلاتا ہی
پھول کا مثال کیوں دوں؟
یہ بھی مرجھا جا تا ہی
بے مثال ہے دوستی
جسکی کوئی مثال نہیں
اور کوئی مثال کیوں دوں
بے مثال ہے دوستی
ٓآز: علی احمد جان اطہ

احسان۔.........۔..........


dedicated to all artist around the world
اک عمر گنوادی لوگوں نی
پر اتنی سی بات نہ جان سکی
اک چمکتا منظر
جو ہم کو دِکھتا ہی
اسے اپنی پنسل کی نوک تلی
ہم کیسے قید کر لیتے ہیں
کیا وہی منظر
اوروں کو نہیں دِکھتا
رب کا یہ احسان ہے ہم پر
ہماری نگاہیں جو منظر قید کر لیتی ہیں
دوسرے صرف دیکھتے ہیں
از: علی احمد جان اطہر

...........دُعا...


التجا ہے یہ ربّ سی
جب تم
مٹی کو بھی چھُولو تو
سونابن کے دمک جائی

.......دسمبر اور تیری یادیں



دسمبر کی ٹھنڈی شام کو
مین اور تیری یادیں
ایک لحاف میں بیٹھے ہیں
بے قراری کا عالم ہی
تم سے ملنے کی خواہش
دل میںجاگ اُٹھتی ہی
باقی دل کے سب ارماں
چکناچُور ہوجاتے ہیں
اِک خلِش میرے دل میں
جو اُداس کرجاتی ہی
ان اُداسیوں میں بھی
بے پناہ لذت ہی
اس لئے ان یادوں کو
میں دوشِ دسمبر پر
اپنے پاس بُلاتا ہوں
اور تم میں کھو جاتا ہو

نایاب پانی



مر ے ہمدم یہ قطری
جو آنکھوں سے رواں ہیں
بہت تم مرتبت دینا
بہت نایاب پانی ہی
اسے تم اہمیت دینا
انھیں گِرنے سے قبل تم
پلکیں اپنی بِچھا دینا
بہت نایاب پانی ہی
یہ خالص غم کے آنسو ہے

انتظار۔۔



وقت کی کمزور ٹہنی پر
اپنے آشیانے سے دور بہت
میں اس بُلبل کی مانند بیٹھا ہوں
جسے اندیھری رات کا خوف ہی
کسی شاہین کے وار کا ڈر ہی
میں بھی ویسے ہی سہما بیٹھا ہوں
شام کی تیز ہوائیں ٹہنی سے
اپنے طاقت کو آزماتی ہیں
جھولتی بَل کھاتی ٹہنی پر
بڑی مشکل سے سنبھل بیٹھا ہوں
کسی جُگنو کی راہیں تکتا ہوں
ٓآشیانے تک جو پہنچادے مجھی
منتظر ہوں اس مسیحا کا
جو آندھیوں بچا لے مجھی