Wednesday, November 16, 2011

ایک سوال


آج گرمی کی شدت زیادہ تھی۔سورج اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ ہم پر شعلے برسا رہا تھا۔ یونیورسٹی میں میںاپنے چند دوستوں کے ہمراہ ایک سیاسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کافی دور نکل آیا تھا۔ زیادہ باتیں کرنے کی وجہ سے میرا حلق سوکھ گیا تھا۔اور میری نظریں کسی بھوکے شکاری کی طرح پانی تلاش کر رہی تھی۔ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے کے مصداق مجھے ایک ڈیپارٹمنٹ کے باہر لگا ہوا پانی کا cooler نظر آیا۔ اور میں دنیا جہاں کو بھول کر اس کی طرف بڑھ گیا۔جہاں پہلے سے تین چار افراد اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے میں بھی لائن میں لگ گیا۔ کولر کے پاس ایک پلاسٹک کا گلاس تھا جسے زنجیروں سے اس طرح باندھا گیا تھا کہ یہ خون خوار درندے کی طرح انسانوں کو چیر پھاڑ دیتا ہو۔ گلاس کو ایک chain کے زریعے کولر کے ساتھ باندھا گیا تھا۔اور کولر کو ایک موٹی chainکی مدد سے لوہے کے دروازے کے ساتھ باندھ کر تالا لگا دیا تھا۔ چھوٹے قد والے حضرات کو پانی پینے میں خاصی دشواری بھی محصوص ہو رہی تھی کیوں کہ chain کی لمبائی اتنی زیادہ نہیں تھی۔
قارئیں اس بندھے ہوے گلاس نے میرے زہن میں کئی سوال پیدا کر دئے کہ یہ گلاس بندھا ہو کیوں ہی؟؟؟؟اس کا آسان سا جواب ہے کہ کوئی اسے اٹھا کے نہ لے جائے یا پانی پینے کے بعد ردی کی ٹوکری کی نذر نہ کے دے یہ گلاس چیخ چیخ کے بتاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کتنا مہذب ہے ۔ایسے کئی مثالیں آپ کے اطراف میں نظر آتی ہیں، ہوٹل کے باہر رکھی کرسیوں سے لیکر دوکانوں کے باہر لگے جنریٹر ، حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو زنجیروں سے باندھ کر تالے لگا دئے جاتے ہیں۔
یہ گلاس کسی کھلی مارکٹ میں نہیں بلکہ ملک کے عظیم درس گاہ کے اندر قیدو بند کے صعوبتیں برداشت کررہا ہی۔جہاں پر موجود تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے ڈھوب مرنے کا مقام ہے جس ملک کی بڑی یونیورسٹی میں ایک پلاسٹک کا گلاس محفوظ نہیں ۔ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ملک کی سڑکوں پر عوام کی جان کیسے محفوظ ہو سکتی ہی۔ ہمارا ایک دوسرے پر بھروسے کا یہ عالم ہے کہ ایک گلاس جس کی قیمت دس روپے ہیں ، کو زنجیروں سے باندھے رکھا ہی۔ یہ گلاس ہم سب سے ایک سوال پوچھتا ہی۔
’’کیا تمھاری جان محفوظ ہے ؟؟‘‘اس کا جواب بھی خود ہی دیتا ہے ۔
’’نہیں ۔۔۔۔جب میں محفوظ نہیں تو تم کیسے محفوظ ہو سکتے ہو!!!‘‘