Monday, November 15, 2010

khof-e-jamia

علی احمد جان (جامعہ کراچی)

عنوان پڑھ کر ایک قاری کو تعجب ضرور ہوگا کہ ایک جامعہ سے کیسا خوف؟ اگر مدرسہ اور اسکول کے ساتھ لفظ ’’خوف‘‘ لکھا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہوم ورک مکمل نہ ہوا یا سبق یاد نہیں کیا تو معلّم سزا دے گا۔ ایک مدرسے کے ساتھ یہ لفظ اور زیادہ صادق آتا ہے کیوں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے مدرسوں میں طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی خبریں آرہی ہیں۔ لیکن ایک جامعہ سے کیسا خوف؟

جامعہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جہاں پہنچنے تک ایک طالبِ علم تقریباً اپنا بیسواں جنم دن مناچکا ہوتا ہے۔ اِس عمر میں قدم رکھنے کے بعد وہ mature ہوتا ہے اور اچھے برے کی بہتر تمیز کرسکتا ہے۔ اپنی بھلائی اور نقصان سے بھی اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ اسی لیے جامعات میں وہ پابندیاں نہیں ہوتیں جو ایک اسکول اور کالج کی حد تک ہوتی ہیں۔

ملک کے بڑے تعلیمی ادارے میں قدم رکھے میرا دوسرا سال ہوگیا ہے لیکن جامعہ میں پہلی کلاس کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔ یہ دن میرے لیے جتنا زیادہ خوشی اور فخر کا تھا اُس سے کئی گنا زیادہ دکھ اور افسوس کا بھی۔ خوشی اس لیے کہ مجھے ملک کے ایک عظیم تعلیمی ادارے میں داخلہ مل گیا اور دکھ اس بات پر کہ پوری یونیورسٹی میں مجھے ایک گروہ یا طالبِ علم ایسا نہیں ملا جو اتحاد اور یک جہتی کی بات کرے۔ لیکن درجنوں ایسے گروہ اور طالبِ علم ملے جو تقسیم اور الگ الگ طبقوں کی بات کررہے تھے۔

ہماری تعارفی کلاس (Orientation Class) میں درجن بھر طلبہ کے گروہ آئے اور منہ میاں مٹھو بن کر چلے گئے اور بالواسطہ (indirectly) ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کسی بھی گروہ میں اتحاد، قومی یک جہتی اور پاکستان کی بات نہیں کی۔ ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ کسی بھی طرح نووارد طلبہ کو اپنے ساتھ شامل کرلے۔

ان گروہوں نے جامعات کے تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ عمارتی حسن کو بگاڑنے میں بھی کوئی کسر باقی نہین چھوڑی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں شاید ہی کوئی دیوار یا دروازہ ہو کہ جس پر پوسٹرز، بینرز اور جھنڈے نہ چسپاں ہوں۔ جگہ جگہ رنگارنگ جھنڈے، پوسٹرز اور کئی کئی میٹر لمبے بینرز آراستہ ہوتے ہیں جو تعلیمی ادارے کے عمارتی حسن کو گہنادیتی ہیں۔ اِن میں بیشتر بینرز اور پوسٹرز پر قرآنی آیات اور مقدس تحاریر درج ہوتی ہیں اور ان کو ایسے چسپاں کیا جاتا ہے کہ مواقع گزرنے کے بعد بھی مہینوں ویسی ہی لگی رہتی ہیں تا وقت یہ کہ گردشِ دوراں کا شکار ہوکر پھٹ نہ جائیں۔ اس عمل سے مقدس آیات اور تحاریر کا تقدس بری طرح پامال ہوتا ہے۔ ان بینرز اور جھنڈوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اتنے گز کپڑے سے نجانے کتنے بے لباسوں کو ڈھانپا جاسکتا ہے۔

ان گرہوں کی ایک سرگرمی آئے روز ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونا اور ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کرنا بھی ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں اگر کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو یہ سب سے پہلے اپنے کالج اور جامعات کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اس واقعے کا کالج اور جامعات کی املاک سے کیا تعلق؟

اب مجھے جامعہ سے ایک ’’خوف‘‘ محسوس ہونے لگا ہے کیوں کہ جامعہ میں آئے روز جھڑپیں ہوتی ہیں۔ میں نے آدھ درجن سے زیادہ جھڑپیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ ان واقعات میں کھلے عام اسلحے کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طالبِ علم کا اسلحے سے کیا تعلق؟ اس کا اصل ہتھیار تو قلم ہے۔ ایک اور اہم سوال کہ وہ ہتھیار لے کر جامعات کی حدود میں داخل کیسے ہوتے ہیں؟ اِس کا مطلب یہ کہ (اللہ نہ کرے) اگر کوئی دہشت گرد چاہے تو بغیر کسی رکاوٹ کے جامعہ کی حدود میں اسلحہ لے کر آسانی سے داخل ہوسکتا ہے اور بڑی تباہی بھی مچاسکتا ہے جیساکہ کچھ عرصہ قبل اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد میں ہوا۔

یہ مسئلہ کسی ایک مخصوص جامعہ یا تعلیمی ادارے کا نہیں بل کہ بالعموم پورے پاکستان اور بالخصوص کراچی کے تعلیمی اداروں کا ہے۔ پہلے تو یہ مرض صرف جامعات تک محدود تھا مگر اب یہ کینسر کی مانند کالجوں اور اسکولوں تک پہنچ چکا ہے اور اس کی جڑیں روز بہ روز مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔ اب مجھے یہ ڈر ہے کہ خدا نہ خواستہ میں بھی اس رنگ میں نہ رنگ جاؤں، کیوں کہ ’’سوکھی لکڑی کے ساتھ ساتھ گیلی لکڑیاں بھی جل جاتی ہیں۔‘‘

کسی بھی معاشرے کا نوجوان طبقہ اس معاشرے کے مستقبل کا اثاثہ ہوتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کے طالب علموں کا ایک بڑا حصہ غلط راہ پر چلتے ہوئے نامعلوم سمت کی طرف رواں دواں ہے جو کہ بعد میں لسانی فسادات کا ایک بڑا سبب بن جاتا ہے۔ ہمارا حکم ران طبقہ نہ صرف تماشائی بنا ہوا ہے بل کہ اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ان طالب علموں کا استعمال کرتا ہے اور ان طالب علموں کے مستقبل کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگادیتا ہے۔

خدارا! حکم ران طبقہ اس بڑے المیے اور اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ دے تاکہ پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر ہمارا قائم و دائم رہے۔ آمین۔